تاثیر 12 مارچ ۲۰۲۵:- ایس -ایم- حسن
نیپال میں بادشاہت کی واپسی اور ہندو راشٹر کی بحالی کے حوالے سے حالیہ دنوں میں جو واقعات سامنے آئے ہیں وہ ملک کے سیاسی منظر نامے میں ایک نئی بحث کو جنم دے رہے ہیں۔گزشتہ 10 مارچ کو کاٹھمنڈو میں ہزاروں حامیوں نے ایک ریلی کی شکل میں سابق بادشاہ گیانیندر شاہ کا پرتپاک استقبال کیا تھا۔یہ واقعہ اس بات کا اشارہ ہے کہ نیپال میں اب بھی ایک طبقہ بادشاہت کی واپسی اور ہندو راشٹر کی بحالی کا خواہاں ہے۔ظاہر ہے اس ریلی نے نیپال کے سیاسی عدم استحکام اور عوام کی بڑھتی ہوئی مایوسی کو نمایاں کیا ہے۔ واضح رہے کہ نیپال میں بادشاہت 2008 میں ختم کر کے ملک کو سیکولر جمہوریہ قرار دیادیا گیا تھا۔یہ فیصلہ اس وقت آیا جب بادشاہ گیانیندر نے اقتدار پر قبضہ کرکے شہری آزادیوں کو محدود کر دیا، جس کے خلاف وسیع پیمانے پر عوامی احتجاج ہوا۔ عوامی دباؤ کے نتیجے میں، گیانیندر کو 2006 میں اقتدار ایک کثیر الجماعتی حکومت کے حوالے کرنا پڑا تھا اور اس طرح نیپال کی 240 سالہ بادشاہت کا خاتمہ ہوگیا۔تاہم، بادشاہت کے خاتمے اور سیکولر جمہوریہ کے قیام کے بعد سے اب تک نیپال میں مسلسل سیاسی عدم استحکام رہا ہے۔ 2008 سے اب تک ملک میں 13 حکومتیں بن چکی ہیں، جن میں بدعنوانی، ناقص طرز حکمرانی اور اقتصادی مسائل کی وجہ سے عوام کی مایوسی میں اضافہ ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ایک طبقہ بادشاہت کی بحالی اور ہندو راشٹر کے قیام کی وکالت کر رہا ہے۔
نیپال میں بادشاہت کی واپسی اور ہندو راشٹر کی بحالی کی تحریک کی قیادت، 1990 کی دہائی میں تشکیل پذیر راشٹریہ پرجاتنتر پارٹی (آر پی پی) کر رہی ہے۔ حالیہ انتخابات میں آر پی پی نے 275 میں سے 14 نشستیں حاصل کیں، جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ بادشاہت کے حامی اب بھی ایک سیاسی قوت کے طور پر ملک میں موجود ہیں۔ پارٹی 2027 کے عام انتخابات میں اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کے لئے عوامی ناراضگی کو اپنے حق میں بھنانے کی لگاتار کوشش کر رہی ہے۔سابق بادشاہ گیانیندر شاہ نے بھی اپنی حالیہ تقریروں میں نیپالی سیاستدانوں پر شدید تنقید کرتے ہوئے جمہوریت کو ناکام قرار دیا ہے۔ انہوں نے عوام سے ملک کے دفاع، ترقی اور استحکام کے لیے متحد ہونے کی اپیل کی ہے، جسے ان کے حامی بادشاہت کی بحالی کی کوشش کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ تاہم، کمیونسٹ پارٹی آف نیپال (سی پی این) اور دیگر بڑی سیاسی جماعتیں اس تحریک کی شدید مخالفت کر رہی ہیں۔ سابق وزیر اعظم مادھو کمار نیپال اور سی پی این ماؤسٹ کے چیئرمین پشپا کمل دہل ’پرچندا‘ کا کہنا ہے کہ بادشاہت کی بحالی ممکن نہیں اور ایسی کوششیں نیپال کے سیاسی استحکام کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ اِدھروزیر اعظم کے پی شرما اولی نے بھی بادشاہت کی حمایت کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ نیپال کا مستقبل جمہوریت میں ہی مضمر ہے۔ مگر اس کے بر عکس 10مارچ کی ریلی میں کچھ حامیوں نے سابق بادشاہ گیانیندر شاہ کی تصویر کے ساتھ اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی تصاویر بھی لہرائیں، جو سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہیں۔ بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یوگی آدتیہ ناتھ کو نیپال میں ہندو قوم پرستی کے فروغ کے لیے ایک علامت کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ نیپال میں جمہوری نظام کثیر الجماعتی سیاست اور متناسب نمائندگی پر مبنی ہے، جو کسی بھی جماعت کے لیے واضح اکثریت حاصل کرنا مشکل بناتا ہے۔ نتیجتاً، ملک میں بار بار مخلوط حکومتیں بنتی اور گرتی رہی ہیں۔ 2015 میں نافذ کیے گئے نئے آئین کے تحت ہونے والے دو انتخابات میں کوئی بھی جماعت اکثریت حاصل نہیں کر سکی تھی، جس کے باعث ملک میں سیاسی عدم استحکام برقرار ہے۔
تاریخی طور پر، نیپالی بادشاہت ہندومت سے جڑی رہی ہے۔ساتھ ہی بادشاہ کو مذہبی تقریبات میں نمایاں حیثیت حاصل رہی ہے۔ 1760 کی دہائی میں ایک مقامی بادشاہ نے مختلف ریاستوں کو متحد کر کے جدید نیپال کی بنیاد رکھی تھی۔ بادشاہ مہیندر اور ان کے جانشین بیرندر کے دور میں بادشاہت انتہائی مرکزیت پر قائم رہی۔ تاہم، 2001 میں شاہی محل میں ہونے والے قتلِ عام کے بعد بادشاہت کمزور ہونا شروع ہوئی۔ شاہ بیرندر اور ان کے اہلِ خانہ کے قتل کے بعد گیانیندر بادشاہ بنے، لیکن سیاسی عدم استحکام اور ماؤ نواز شورش کے باعث ان کی مقبولیت کم ہوگئی۔ 2006 میں ایک وسیع عوامی تحریک کے نتیجے میں بادشاہت کا خاتمہ کر دیا گیا اور 2008 میں نیپال کو جمہوریہ قرار دیا گیا۔موجودہ صورتحال اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ نیپال کا ایک طبقہ جمہوری حکومت سے ناخوش ہے اور بادشاہت کو ایک ممکنہ متبادل کے طور پر دیکھ رہا ہے۔ تاہم، یہ حقیقت ہے کہ بادشاہت کی بحالی آسان نہیں ہوگی کیونکہ نیپال کی بڑی سیاسی جماعتیں اور عوام کی اکثریت جمہوری نظام کے حامی ہیں۔ سیاسی ماہرین کے مطابق، نیپال کے سیاسی مستقبل کے حوالے سے غیر یقینی صورتحال برقرار ہے۔ ایسے میں نیپال کو چاہئے کہ وہ اپنی جمہوریت کو مزید مستحکم کرے، شفاف گورننس کو فروغ دے اور عوامی اعتماد بحال کرے تاکہ سیاسی استحکام حاصل کیا جا سکے۔
****