رمضان المبارک کے چند اعمال

تاثیر 19  مارچ ۲۰۲۵:- ایس -ایم- حسن

 

پروفیسر مولانا انس سعیدی اشاعتی شیخ پوری
خادم جامعہ قاسم العلوم منجھوک اتردیناج پور بنگال

رمضان المبارک کے ماہ سعید میں حضور نبی اکرم کے معمولات عبادت و ریاضت میں عام دنوں کی نسبت کافی اضافہ ہو جاتا تھا اس مہینے میں اللہ تعالی کی خشیت اور محبت اپنے عروج پر ہوتی اسی شوق اور محبت میں آپ صلّی اللہ علیہ وسلم راتوں کے قیام کو بھی بڑھا دیتے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے انہیں معمولات کا ذکر کیا جاتا ہے تا کہ ہم بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ پر عمل کر کے اس مہینے کی برکتوں اور سعادتوں کو لوٹ سکیں۔
مختصر طور پر ان اعمال کی طرف رہنمائی کی جاتی ہے جن کا اس مبارک مہینہ میں خصوصی سےاہتمام ہونا چاہیے:
۔ پورے ذوق و شوق سے روزے اور تراویح کا اہتمام کیا جائے کیوں کہ ان عبادات کا حکم ہمارے فائدے کے لیے دیا گیا ہے۔
اگر یہ عبادات مشروع نہ کی جاتیں تو یہ مبارک اوقات غفلت میں گذر جاتے ۔

۔ مسجد میں تکبیر اولی کے ساتھ نماز با جماعت کا اہتمام کیا جائے۔ عموماً یہ دیکھاگیا ہے کہ گھروں میں افطاری کی وجہ سے مسجد کی جماعت سے یا کم از کم تکبیر اولی سےمحرومی ہو جاتی ہے۔
اس سے بچنے کی پوری کوشش کی جائے۔

-کلمہ طیبہ درود شریف، توبہ استغفار اور خاص طور پر دعاؤں کا اہتمام کیا جائے۔

-تلاوتِ کلام پاک کا خصوصی اہتمام کیا جائے، دیکھ کر بھی اور نوافل میں بھی۔ نماز کی حالت میں کھڑے ہو کر قرآن کریم پڑھنے سے ایک حرف پر سو نیکیاں اور بیٹھ کر پڑھنے سے ایک حرف پر پچاس نیکیاں ملتی ہیں۔

-روزے کی حالت میں تمام گناہوں سے خاص طور پر جھوٹ سے مکمل پر ہیز کیا جائے۔ رسول اللہ صلی سلام نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص جھوٹ اور اس پر عمل سے باز نہ آئے تو اللہ تعالیٰ کو اس کے بھو کے رہنے کی کوئی ضرورت نہیں۔

-نظر کی حفاظت کرنا، زبان کی حفاظت کرنا حتی کہ دل و دماغ کے گناہوں سے بھی اپنے روزے کو محفوظ رکھنا۔جس طرح کھانے پینے سے روزہ رکھتے ہیں اسی طرح گناہوں سے بھی روزہ رکھا جائے کہ گناہ نہیں کریں گے؛ البتہ کھانے پینے کا روزہ افطاری کے بعد حلال ہو جاتا ہے جبکہ گناہ افطاری کے بعد بھی حلال نہیں ہوتا، نہ رمضان میں اور نہ غیر رمضان میں۔ لہذا جب ہم وقتی اور عارضی حرام کو حکم خداوندی کی وجہ سے چھوڑ دیتے ہیں تو دائمی حرام کو بھی ضرور چھوڑ دینا چاہیے۔

-اس ماہ مبارک میں مغفرت اور رحمت خداوندی کے حصول میں ایک دوسرے سے بڑھنے کی کوشش کرنی چاہیے کیوں کہ مولائے کریم کار خیر میں اپنے بندوں کی مسابقت دیکھنا پسند کرتے ہیں اور اس کا حکم بھی فرماتے ہیں۔

-بازار اور گھریلو کاموں سے جس قدر جلدی ممکن ہو سکے فراغت حاصل کر کے زیادہ سے زیادہ اوقات مسجد کے لیے فارغ کر لینا چاہیے، کیوں کہ
ع یہ لمحے زندگی میں بار بار آیا نہیں۔ کرتے-

-ماہ رمضان اگر اللہ والوں کی صحبت میں گزارنے کا اہتمام کر لیا جائے تو مذکورہ تمام باتوں پر عمل کرنا آسان ہو جائے۔

– اپنے ملازمین اور ماتحتوں کے لیے کام میں سہولت کی جائے۔

– اپنے پڑوسیوں نیز غربا و مساکین کی خدمت اور دل داری بھی اس ماہ مبارک کا خصوصی عمل ہے۔
حدیث پاک میں ہے کہ ماہ مبارک میں حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا جود وسخا بہت بڑھ جاتا تھا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم چلتی ہوا سے بھی زیادہ سخی ہو جاتے تھے۔

-افطاری میں غریبوں کو شریک کرنا چاہیے اور ان کا مالی تعاون بھی کرنا چاہیے۔

۔ اس ماہ مبارک میں حصول تقوی، ایمان و اعمال کی حفاظت، اسلام کی سربلندی اور مدارس دینیہ کی حفاظت ، مظلوم مسلمانوں کی حمایت و نصرت کی خوب دعائیں کی جائیں۔