جمہوری وقار کے لئے نامناسب رویہ

تاثیر 20  اپریل ۲۰۲۵:- ایس -ایم- حسن

بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے رکن پارلیمنٹ نشیکانت دوبے اور راجیہ سبھا رکن دینیش شرما کے سپریم کورٹ اور چیف جسٹس آف انڈیا (سی جے آئی) سنجیو کھنہ کے خلاف دیے گئے بیانات نے ملک میں سیاسی ہنگامہ برپا کر دیا ہے۔ نشیکانت دوبے نے سپریم کورٹ پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’ملک میں تمام مذہبی تنازعات کو ہوا دینے کے لئے سپریم کورٹ ہی ذمہ دار ہے۔ عدالت اب اپنی حدود سے تجاوز کر رہی ہے۔ اگر ہر معاملے پر سپریم کورٹ جانا ہے تو پارلیمنٹ اور اسمبلیوں کو بند کر دینا چاہئے۔‘‘ انھوںنے یہ بھی الزام لگایا کہ ’’ملک میں خانہ جنگی جیسے حالات کے لئے صرف سی جے آئی سنجیو کھنہ ذمہ دار ہیں۔‘‘ اسی طرح، دینیش شرما کے بیانات نے بھی عدلیہ کے وقار پر سوالات اٹھائے ہیں۔ ان بیانات کے بعد ، اطلاع ملی ہے کہ سابق آئی پی ایس افسر ابھیتابھ ٹھاکر نے توہین عدالت کی درخواست دائر کی ہے۔اس کے بعد سے تنازع مزید گہرا ہو گیا ہے۔ اِدھربعض سیاسی ماہرین کا ماننا ہے کہ وقف (ترمیمی) ایکٹ 2025 کے خلاف دائر عرضیوں پر 16 اپریل اور 17 اپریل کو سپریم کورٹ میں ہوئی سماعت اور کورٹ کی جانب سے اٹھائے گئے سوالات نے تنازع کو مزید ہوا دی ہے۔ اس سماعت کے بعد سے نہ صرف بی جے پی کے چند فائر برانڈ لیڈر تلملائے ہوئے ہیں، بلکہ کچھ چھوٹے درجے کے لیڈر بھی سوشل میڈیا پر سپریم کورٹ کے لئے نازیبا الفاظ استعمال کر رہے ہیں، جو کسی بھی اعتبار سے مناسب نہیں ہیں۔
دوسری طرف اس تنازع نے اپوزیشن جماعتوں کو بی جے پی اور حکومت پر حملہ کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ اپوزیشن نے عدلیہ کے احترام اور آئینی اداروں کی خودمختاری پر زور دیتے ہوئے بی جے پی کے رویے کو غیر ذمہ دارانہ قرار دیا ہے۔ بی جے پی رہنما کیلاش وجے ورگیہ نے نشیکانت دوبے کو یہ نصیحت تو ضرور کی ہے کہ وہ عوامی بیانات میں تحمل سے کام لیں، لیکن انہوں نے بالواسطہ طور پر دوبے کے موقف کی حمایت بھی کی ہے۔ وجے ورگیہ نے کہا کہ ، ’’بعض اوقات سچ بھی نہیں بولنا چاہئے۔ ہر چیز کی ایک مریادہ ہوتی ہے۔‘‘ اس بیان سے واضح ہوتا ہے کہ پارٹی کے اندر دوبے کے موقف سے مکمل لاتعلقی نہیں ہے، جو اپوزیشن کے لیے ایک نیا ہدف بن سکتا ہے۔ جبکہ  اس تنازع کا دوسرا رخ سابق چیف الیکشن کمشنر ڈاکٹر ایس وائی قریشی سے جڑا ہے۔ نشیکانت دوبے نے قریشی پر مسلم تسکین کا الزام لگاتے ہوئے کہا ہے کہ ’’آپ الیکشن کمشنر نہیں، مسلم کمشنر تھے۔‘‘ انھوں نے دعویٰ کیا ہے کہ جھارکھنڈ کے سنتھال پرگنہ میں بنگلہ دیشی دراندازوں کو سب سے زیادہ ووٹر قریشی کے دور میں بنایا گیا۔ دوبے نے مزید کہا ہے کہ ’’اسلام 712 میں بھارت آیا، اس سے پہلے یہ زمین ہندوؤں، آدیواسیوں، جینوں یا بدھ مت کے ماننے والوں کی تھی۔‘‘ یہ بیانات قریشی کی ایک پوسٹ کے جواب میں دئے گئے ہیں، جس میں انہوں نے وقف ایکٹ کو’’مسلم اراضی ہتھیانے کی حکومت کی خطرناک منصوبہ بندی‘‘ قرار دیا تھا۔ڈی وائی قریشی کا کہنا ہے کہ ’’مجھے یقین ہے کہ سپریم کورٹ اس پر سوال اٹھائے گی۔ شرارتی پروپیگنڈہ مشین نے غلط معلومات پھیلانے کا کام بہترین طریقے سے کیا ہے۔‘‘ اس پورے معاملے کو دیکھنے سے بادی النظر میں یہی لگتا ہے کہ نشیکانت دوبے کا ردعمل نہ صرف ڈی وائی قریشی پر ذاتی حملہ تھا بلکہ انھوں نے ایک آئینی عہدے کی ساکھ کو بھی نشانہ بنایا ہے۔حالانکہ بی جے پی صدر جے پی نڈا نے اس تنازع پر پارٹی کا موقف واضح کرتے ہوئے کہا ہے کہ نشیکانت دوبے اور دینیش شرما کے بیانات ذاتی ہیں اور پارٹی کا ان سے کوئی تعلق نہیں۔
  اِدھربے جے پی صدر جے پی نڈا کہتے ہیں کہ ، ’’بی جے پی ہمیشہ عدلیہ کا احترام کرتی ہے۔ ہم سپریم کورٹ سمیت تمام عدالتوں کے فیصلوں اور تجاویز کو قبول کرتے ہیں۔ عدلیہ جمہوریت کی روح ہے اور بی جے پی اسے مکمل عزت دیتی ہے۔‘‘ انہوں نے پارٹی کے تمام ارکان کو ہدایت دی ہے کہ آئندہ عدلیہ کی توہین کرنے والے بیانات سے گریز کریں۔ظاہر ہے جے پی نڈا کا یہ بیان پارٹی کی جانب سے تنازع کو ختم کرنے کی کوشش ہے، لیکن اپوزیشن کی تنقید اور عوامی ردعمل سے یہ معاملہ ابھی شانت ہونے کا نام نہیں لے رہا ہے۔یہ تنازع ہمیں ایک اہم سبق دیتا ہے۔اور وہ سبق یہ ہے کہ کسی بھی رہنما بالخصوص آئینی عہدے پر مامور لیڈروں یا عام شہری کو اپنی بات کہنے سے پہلے سو بار سوچنا چاہئے کہ ان کے الفاظ بھارت کے آئین اور اس کی بنیاد پر قائم اداروں کے وقار کو ٹھیس پہنچانے والے تو نہیں ہیں؟ کیا یہ ہمارےجمہوری اور آئینی اداروں کی ساکھ کو مجروح کرتے ہیں یا کسی شہری کی دل آزاری کا باعث بنتے ہیں؟ سیاسی بیانات کی آڑ میں  آئینی اداروں کی خودمختاری اور عوام کے جذبات کو ٹھیس پہنچانا نہ صرف غیر ذمہ دارانہ عمل ہے بلکہ ہمارے جمہوری ڈھانچے کےلئے خطرناک بھی ہے۔