ایران۔ امریکہ مذاکرات: امید کی جانب قدم

تاثیر 13  اپریل ۲۰۲۵:- ایس -ایم- حسن

عمان کے دارالحکومت مسقط میں ایران اور امریکہ کے درمیان 12 اپریل سے شروع ہوئے جوہری مذاکرات کی پہلی نشست نے عالمی توجہ حاصل کی ہے۔ وائٹ ہاؤس نے اسے’’مثبت اور تعمیری‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ مذاکرات ایران کے متنازع جوہری پروگرام پر نئے معاہدے کی جانب ایک قدم ہیں۔ ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی اور امریکی نمائندہ خصوصی سٹیو وٹکوف نے بالواسطہ بات چیت کی، جس میں باہمی احترام کے ماحول میں دونوں ممالک کے موقف کا تبادلہ ہوا۔ اگلا اجلاس اگلے ہفتے طے پایا ہے، جو اس عمل کی تسلسل کی عکاسی کرتا ہے۔یہ مذاکرات اس وقت ہو رہے ہیں، جب ایران اور مغرب کے درمیان کشیدگی عروج پر ہے۔
2015 کے جوہری معاہدے (جے سی پی او اے) سے 2018ء میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی یکطرفہ دستبرداری اور ایران پر دوبارہ پابندیوں نے صورتحال کو پیچیدہ کر دیا تھا۔ ایران نے جواباََیورینیم افزودگی کی حدود سے تجاوز کیا، جو عالمی تشویش کا باعث بنا۔ انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (آئی اے ای اے) کے مطابق، مارچ 2025ء تک ایران کے پاس 275 کلوگرام یورینیم 60 فیصد خالص حالت میں موجود ہے، جو نظریاتی طور پر چھ جوہری ہتھیار بنانے کے لیے کافی ہے۔ امریکی حکام کا خیال ہے کہ ایران ایک ہفتے میں ہتھیاروں کی سطح کا یورینیم تیار کر سکتا ہے، اگرچہ مکمل ہتھیار بنانے میں چھ ماہ سے ڈیڑھ سال لگ سکتا ہے۔ایران کا اصرار ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے، لیکن 2002ء میں خفیہ تنصیبات کی دریافت نے اس کے ارادوں پر سوالات اٹھائے۔
جوہری عدم پھیلاؤ معاہدہ (این پی ٹی)، جس پر ایران نے دستخط کیے ہیں، جوہری ہتھیار بنانے کی ممانعت کرتا ہے۔ تاہم، ایران کی حالیہ سرگرمیوں نے اس معاہدے کی خلاف ورزیوں کو جنم دیا ہے، جس سے عالمی برادری بے چین ہے۔امریکہ کی پابندیوں نے ایران کی معیشت کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ تیل کی برآمدات متاثر ہوئی ہیں، غیر ملکی اثاثے منجمد ہوئے ہیں اور کرنسی کی قدر گرنے سے مہنگائی بڑھی ہے۔ جے سی پی او اے نے ایران کو معاشی ریلیف دیا تھا، لیکن ٹرمپ نے اسے’’ناقص‘‘ قرار دے کر ختم کر دیا، کیونکہ یہ ایران کے بیلسٹک میزائل پروگرام اور خطے میں اثر و رسوخ کو محدود نہیں کرتا تھا۔ اب ٹرمپ ایک ’’بہتر‘‘ معاہدے کی بات کر رہے ہیں، لیکن ایران نے براہ راست مذاکرات سے انکار کیا ہے اور فوجی آپشن کو مسترد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔اس مذاکراتی عمل نے خطے کے اہم کھلاڑیوں، خصوصاً اسرائیل کو پریشان کیا ہے۔ اسرائیل، جو خود این پی ٹی کا حصہ نہیں اور مبینہ طور پر جوہری ہتھیار رکھتا ہے، ایران کے جوہری پروگرام کو اپنے وجود کے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔
اِدھر اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے واضح کیا کہ وہ صرف اس معاہدے کو قبول کریں گے، جس میں ایران اپنا جوہری پروگرام مکمل ختم کرے۔ اسرائیل کو خدشہ ہے کہ ٹرمپ کوئی سمجھوتہ قبول نہ کر لیں جو ایران کو جوہری صلاحیت برقرار رکھنے کی اجازت دے۔فوجی کارروائی کا امکان بھی موجود ہے، لیکن یہ انتہائی پیچیدہ اور خطرناک ہوگا۔ ایران کی جوہری تنصیبات زیر زمین ہیں، جنہیں تباہ کرنے کے لیے خصوصی بنکر بسٹر بم درکار ہیں، جو صرف امریکہ کے پاس ہیں۔ ایران یقینی طور پر جوابی حملے کرے گا، جس میں خطے میں امریکی اڈوں اور اسرائیل پر میزائل حملے شامل ہو سکتے ہیں۔ خلیجی ممالک، جیسے قطر، جوابی کارروائی کے خوف سے تعاون سے گریز کر سکتے ہیں۔ یہ مذاکرات ایک نازک موڑ پر ہیں۔ اگرچہ مثبت پیش رفت کی خبریں امید افزا ہیں، لیکن دونوں فریقوں کے درمیان بداعتمادی گہری ہے۔ ایران معاشی پابندیوں سے نجات مانگتا ہے، جبکہ امریکہ اور اس کے اتحادی جوہری پروگرام کی مکمل بندش چاہتے ہیں۔ عالمی برادری کے لیے یہ ایک امتحان ہے کہ کیا سفارت کاری تنازعات حل کر سکتی ہے، یا خطہ ایک نئی کشیدگی کی طرف بڑھے گا۔ پاکستان سمیت خطے کے ممالک کو اس صورتحال پر گہری نظر رکھنی چاہئے، کیونکہ اس کے اثرات دور رس ہو سکتے ہیں۔
بہر حال ایران اور امریکہ کے مابین مسقط میں، 12 اپریل سے شروع ہوئے جوہری مذاکرات نے عالمی سطح پر امید کی کرن جگائی ہے، لیکن گہری بداعتمادی اور پیچیدہ مسائل حل طلب ہیں۔ 2015 کے معاہدے کی بحالی یا نیا سمجھوتہ ایران کے جوہری پروگرام کو محدود کرنے اور پابندیوں سے نجات دلانے کی کوشش ہے۔ ایران اپنے پرامن مقاصد کا دعویٰ کرتا ہے، مگر یورینیم افزودگی نے عالمی تشویش بڑھائی ہے۔ اسرائیل جیسے ممالک پروگرام کے مکمل خاتمے کا مطالبہ کرتے ہیں، جبکہ فوجی کارروائی کے امکانات خطے کو غیرمستحکم کر سکتے ہیں۔ مذاکرات کا تسلسل مثبت ہے، لیکن کامیابی کے لیے باہمی اعتماد اور سفارتی لچک درکار ہے۔ ناکامی کی صورت میں معاشی دباؤ اور تنازعات بڑھ سکتے ہیں، جو خطے، بشمول پاکستان، کے استحکام پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ عالمی برادری کو سفارت کاری کے ذریعے اس نازک صورتحال کو سنبھالنا ہوگا تاکہ امن کی راہ ہموار ہو سکے۔