تاثیر 18 اپریل ۲۰۲۵:- ایس -ایم- حسن
نائب صدر جمہوریہ جگدیپ دھنکھڑ کے حالیہ ریمارکس، جن میں انہوں نے سپریم کورٹ کے ایک فیصلے پر تنقید کی ہے، نے بھارت کے آئینی ڈھانچے میں اختیارات کی تقسیم کے بارے میں اہم بحث چھیڑ دی ہے۔ سپریم کورٹ نے اپنے ایک حالیہ فیصلے میں صدر جمہوریہ اور گورنرز کے لیے بل کی منظوری، مسترد یا واپسی کے لیے وقت کی حد مقرر کی تھی۔ دھنکھڑ نے اسے عدلیہ کی ایگزیکٹو کے دائرہ کار میں مداخلت قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ عدالتیں صدر مملکت کو احکامات نہیں دے سکتیں۔ انہوں نے آئین کے آرٹیکل 142 کو’’نیوکلیئر میزائل ‘‘ کہہ کر اسے جمہوری اداروں کے لیے خطرہ قرار دیا ہے۔ اس کے علاوہ، انہوں نے دہلی ہائی کورٹ کے جسٹس یشونت ورما ، جن کے گھر سے پچھلے دنوں جلے ہوئے نوٹوں کے کئی بنڈل ملے تھے، کے خلاف ایف آئی آر درج نہ ہونے پر سوال اٹھا کر عدالتی احتساب کی طرف بھی توجہ مبذول کرائی ہے۔
یہ تنازع 8 اپریل 2025 کو سپریم کورٹ کے ایک فیصلے سے شروع ہوا ہے، جب تمل ناڈو حکومت بمقابلہ گورنر کیس میں عدالت نے گورنرز کی جانب سے بلوں کی منظوری میں تاخیر پر فیصلہ سنایا تھا۔ جسٹس جے بی پاردیوالا اور آر مہادیون کی بنچ نے ہدایت دی کہ گورنرز ایک ماہ کے اندر بل پر فیصلہ کریں اور اگر بل صدر مملکت کو بھیجا جائے تو صدر کو تین ماہ میں فیصلہ کرنا ہوگا۔ اس فیصلے کا مقصد’’پاکٹ ویٹو‘‘ یعنی بلوں کو غیر معینہ مدت تک روکنے کی روایت کو ختم کرنا تھا۔ عدالت نے اس عمل کو آئینی مقاصد کے منافی قرار دیا تھا۔ اگرچہ یہ فیصلہ قانون سازی کی کارکردگی کے لئے پورے ملک میں اہم سمجھا گیا تھا، لیکن دھنکھڑکے ذریعہ اسے عدلیہ کی جانب سے حد سے تجاوز قرار دیا گیا ہے۔ انہوں نے راجیہ سبھا کے انٹرنز سے خطاب میں کہا کہ عدالتیں اس طرح کے احکامات دے کر’’سپر پارلیمنٹ‘‘ کا کردار ادا کر رہی ہیں۔ انہوں نے آرٹیکل 142 کے غلط استعمال اور عدالتی احتساب پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔بھارت کا صدر، بحیثیت سربراہ مملکت، اہم آئینی ذمہ داریاں ادا کرتا ہے، لیکن اس کا کردار زیادہ تر رسمی ہے۔ آرٹیکل 201 کے تحت، گورنر کسی ریاستی بل کو صدر کے غور کے لیے محفوظ کر سکتا ہے، اور صدر اسے منظور، مسترد یا دوبارہ غور کے لیے واپس کر سکتا ہے۔ آئین میں اس فیصلے کے لیے کوئی وقت کی حد مقرر نہیں، جس کی وجہ سے اکثر تاخیر ہوتی ہے۔ سپریم کورٹ نے اسی خلا کو پر کرنے کے لیے مداخلت کی تھی۔
صدر جمہوریہ کے اعتراضات دو نکات پر مرکوز ہیں: عدلیہ کی مبینہ تجاوزات اور آرٹیکل 142 کا غلط استعمال۔ ان کا کہنا ہے کہ صدر کو ہدایات دینا اختیارات کی تقسیم کی خلاف ورزی ہے۔ آرٹیکل 142 کو’’نیوکلیئر میزائل‘‘ کہنا اس خیال کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ یہ شق، جو انصاف کے لیے بنائی گئی، اب جمہوری اداروں کے خلاف استعمال ہو رہی ہے۔ تاریخی طور پر، آرٹیکل 142 کا استعمال، جیسے کہ بابری مسجد کیس (2019) یا چنڈی گڑھ میئر الیکشن (2024) میں، اس کی طاقت کو ظاہر کرتا ہے، لیکن دھنکھڑ اسے جمہوری جوابدہی کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔جسٹس ورما کیس پر ان کے ریمارکس عدالتی استثنیٰ پر تشویش کو اجاگر کرتے ہیں۔ انہوں نے سوال اٹھایاہے کہ سنگین الزامات کے باوجود ان کے خلاف ایف آئی آر کیوں نہ درج کی گئی۔ عدالتی احتساب کے تحت چیف جسٹس آف انڈیا شکایات کا جائزہ لیتے ہیں اور صدر کو ایف آئی آر کی اجازت کی سفارش کر سکتے ہیں، لیکن صدر اس پر عمل کرنے کا پابند نہیں۔ظاہر ہے دھنکھڑ کے تبصرے عدلیہ کے مبینہ استثنیٰ پر مایوسی کو ظاہر کرتے ہیں۔
قانون کے ماہرین اس معاملے میں منقسم ہیں۔ سینئر ایڈووکیٹ کپل سبل نے دھنکھڑ کے ریمارکس کو عدالتی آزادی پر حملہ قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ آرٹیکل 142 عدلیہ کو قانون کے خلا کو پر کرنے کی طاقت دیتا ہے اور عدالتی نگرانی ایگزیکٹو کی جوابدہی کو یقینی بناتی ہے۔ دوسری طرف، آئین کے ماہر سوبھاش کشیپ کہتے ہیں کہ آرٹیکل 201 میں وقت کی حد نہیں ہے اور عدالتی فیصلہ صدر کے صوابدیدی اختیارات پر تجاوز ہے۔ سابق اٹارنی جنرل مکل روہتگی کا خیال بھی سوبھاش کشیپ سے ملتا جلتا ہے۔ویسےیہ تنازع بھارت کی آئینی جمہوریت میں کشیدگی کو عیاں کرتا ہے۔ عدلیہ کی مداخلت قانون سازی میں تاخیر کے مسئلے کو حل کرتی ہے، لیکن اسے تجاوز سمجھا جا سکتا ہے۔ آرٹیکل 142 انصاف کو یقینی بنانے کے لئے بے حد اہم ہے۔بیشتر ماہرین کا کہنا ہے کہ بل کی منظوری میں غیر ضروری لیٹ لطیفی گڈ گورننس کے حق میں نہیں ہے۔ چنانچہ عدلیہ کی مداخلت اس کے احساس ذمہ داری کو عیاں کرتی ہے۔ دھنکھڑ کی تنقید بھی اپنی جگہ درست ہے، لیکن ان کا اشتعال انگیز لہجہ ادارہ جاتی ہم آہنگی کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ عدالتی احتساب اور بل کی منظوری کے لئے وقت کی حد کےلئے قانونی اصلاحات کی ضرورت ہے۔چنانچہ تمام حکومتی اداروں کو آئینی حدود میں رہتے ہوئے جمہوری توازن کو ہر ممکن برقرار رکھنے کی ضرورت ہے۔