تاثیر 6 اپریل ۲۰۲۵:- ایس -ایم- حسن
وقف (ترمیمی) ایکٹ2025، کے خلاف اب تک داخل تقریباََ 10 عرضیوں کی سماعت کا اشارہ سپریم کورٹ کے ذریعہ دیا گیا ہے۔سماعت کے لئے سپریم کورٹ نے ابھی کوئی مخصوص تاریخ کا اعلان نہیں کیا ہے۔ تاہم، عدالت عظمیٰ کے روایتی طریقہ کار کو دیکھتے ہوئے، یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس معاملے کی حساسیت اور عوامی دلچسپی کے پیش نظر سماعت جلد شروع ہو سکتی ہے۔ عام طور پر، سپریم کورٹ ایسی درخواستوں پر ابتدائی سماعت چند ہفتوں سے لے کر چند مہینوں کے اندر طے کرتی ہے، بشرطیکہ کوئی فوری حکم امتناعی (اسٹے) کا مطالبہ نہ ہو۔ اگر درخواست گزاروں نے قانون کے فوری نفاذ کو روکنے کی درخواست کی ہوگی ،تو سماعت جلد ہی شروع ہو سکتی ہے۔بصورت دیگر، عدالتی شیڈول اور مقدمات کے بوجھ کو دیکھتے ہوئے یہ عمل مئی یا جون 2025 تک بھی جا سکتا ہے۔ سماعت کے آغاز کا انحصار اس بات پر بھی ہوگا کہ درخواست گزار وں نےکتنے مضبوط دلائل اور ثبوت پیش کئے ہیں۔سپریم کورٹ معاملے کی سماعت کے دوران متعدد اہم پہلوؤں پر غور کر سکتی ہے۔ سب سے پہلے، عدالت آئین کے بنیادی ڈھانچے کے تحت اس قانون کی آئینی حیثیت کا جائزہ لے گی۔ آئین کی دفعہ 25 اور 26، جو مذہبی آزادی اور مذہبی اداروں کے انتظام کے حقوق کی ضمانت دیتی ہیں، اس تنازع کا مرکز ہوں گی۔
درخواست گزاروں کا موقف ہے کہ یہ قانون وقف املاک پر حکومتی کنٹرول بڑھا کر مسلم کمیونٹی کے مذہبی اور جائیدادی حقوق کو سلب کرتا ہے۔ عدالت اس بات کا جائزہ لے گی کہ کیا یہ ترامیم آئین کے سیکولر اصولوں اور اقلیتی حقوق کے تحفظ سے متصادم ہیں۔دوسرا اہم پہلو قانون کی انتظامی شقوں کا ہوگا، جیسے کہ ضلع کلکٹر کو وقف جائیدادوں پر فیصلہ کرنے کا اختیار دینا اور وقف بورڈز میں غیر مسلم اراکین کی شمولیت وغیرہ۔ سپریم کورٹ اس بات کی جانچ کر سکتی ہے کہ کیا یہ شقیں وقف کے شرعی اصولوں اور اس کی تاریخی روایات سے ہم آہنگ ہیں یا نہیں۔ مزید برآں، عدالت یہ بھی دیکھے گی کہ کیا پارلیمنٹ نے اپنے قانون سازی کے دائرہ اختیار سے تجاوز کیا ہے ؟ کیونکہ وقف املاک کے انتظام کا معاملہ روایتی طور پر ریاستی وقف بورڈز کے تحت آتا ہے۔تیسرا، قانون کے سماجی اور معاشی اثرات بھی زیر غور آ سکتے ہیں۔ درخواست گزاروں کا دعویٰ ہے کہ یہ قانون وقف املاک کو ناجائز قبضوں کے لیے قانونی تحفظ فراہم کر سکتا ہے، جو مسلم کمیونٹی کی فلاحی سرگرمیوں کو متاثر کرے گا۔ عدالت اس تناظر میں قانون کے مقاصد(شفافیت اور جوابدہی) اور اس کے ممکنہ منفی نتائج کے درمیان توازن کا جائزہ لے گی۔سپریم کورٹ کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ وقف (ترمیمی) قانون 2025 کو جزوی یا کلی طور پر مسترد کرے، بشرطیکہ اسے آئین کے منافی یا غیر منصفانہ پایا جائے۔ ماضی میں، عدالت نے متعدد قوانین کو مکمل طور پر کالعدم قرار دیا ہے، جیسے کہ پرائیویسی کے حق سے متعلق کچھ انتظامی احکامات، جبکہ بعض اوقات صرف متنازع شقوں کو منسوخ کیا، جیسے کہ آئی ٹی ایکٹ کی دفعہ 66A کے معاملے میں۔ اس قانون کے حوالے سے، اگر عدالت یہ فیصلہ کرتی ہے کہ غیر مسلم اراکین کی شمولیت یا ضلع کلکٹر کے اختیارات آئین کے آرٹیکل 25 اور 26 کی خلاف ورزی کرتے ہیں، تو ان شقوں کو منسوخ کیا جا سکتا ہے، جبکہ شفافیت سے متعلق دیگر ترامیم برقرار رہ سکتی ہیں۔ہاں،اس کےمکمل مسترد ہونے کا امکان اس وقت بڑھے گا جب عدالت یہ نتیجہ اخذ کرے کہ قانون کا بنیادی مقصد وقف کے مذہبی کردار کو کمزور کرنا اور اسے سرکاری کنٹرول میں لینا ہے۔ تاہم، عدالت عموماً قانون ساز ادارے کے اختیار کا احترام کرتی ہے اور مکمل منسوخی سے گریز کرتی ہے، جب تک کہ سنگین آئینی خلاف ورزی ثابت نہ ہو۔ اس لیے جزوی رد ہونے کا امکان زیادہ ہے، خاص طور پر ان شقوں کے حوالے سے جو اقلیتی حقوق یا مذہبی آزادی سے براہ راست ٹکراتی ہیں۔
وقف (ترمیمی) ایکٹ2025، کے مستقبل کے حوالے سے کئی امکانات ہیں۔ اگر سپریم کورٹ اسے مکمل طور پر مسترد کر دیتی ہے، تو یہ حکومت کے لیے ایک بڑا دھچکا ہوگا اور مسلم کمیونٹی کے اعتماد کو بحال کرنے میں مدد ملے گی۔ تاہم، اگر قانون جزوی طور پر برقرار رہتا ہے، تو اس کے نفاذ میں عملی مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں، کیونکہ متنازع شقوں کے بغیر ممکن ہے حکومت کے مقاصد پورے نہیں ہوں۔ اس صورت میں، حکومت نئے ترمیمی بل کے ذریعے دوبارہ کوشش کر سکتی ہے، جو سیاسی تناؤ کو مزید بڑھا سکتا ہے۔اس قانون کا مستقبل نہ صرف قانونی بلکہ سیاسی اور سماجی عوامل سے بھی جڑا ہے۔ بھارت میں بڑھتی ہوئی مذہبی منافرت اور اقلیتوں کے خلاف مبینہ امتیازی پالیسیوں کے تناظر میں، یہ معاملہ اپوزیشن جماعتوں اور مسلم تنظیموں کے لیے ایک بڑا ہتھیار بن سکتا ہے۔ اگر عدالت قانون کے حق میں فیصلہ دیتی ہے، تو اس سے مسلم کمیونٹی میں عدم تحفظ کا احساس بڑھے گا ، جو ایک مضبوط و مستحکم ملک کی صحت کے لئے مناسب نہیں ہوگا۔ دوسری طرف، حکومت اسے اپنی مہم کی فتح کے طور پر پیش کر سکتی ہے۔ اب صورتحال خواہ جو بھی ہو،معاملے کی سماعت کے دوران آئینی حقوق، مذہبی آزادی اور حکومتی اختیارات کے سوالات ضرور زیر بحث آئیں گے۔ قانون کلی طور پر مسترد ہو یا جزوی طور پر دونوں صورتوں میں فیصلہ بھارت کے سماجی و سیاسی ماحول کو متاثر کرے گا۔ یہ معاملہ ایک بار پھر ثابت کرے گا کہ بھارت جیسے متنوع معاشرے میں قانون سازی اور مذہبی حساسیت کے درمیان توازن قائم کرنا کتنا پیچیدہ ہے۔ اب سب کی نظریں سپریم کورٹ پر ہیں کہ وہ اس تنازع کو کس طرح حل کرتی ہے اور اس کا بھارت کےمعاشرے پر کیا اثر پڑتا ہے۔
*********