تاثیر 12 اپریل ۲۰۲۵:- ایس -ایم- حسن
سپریم کورٹ آف انڈیا نے ملک میں موجودہ سیاسی حالات کے پیش نظر نئی رہنمائی فراہم کرتے ہوئے ایک ایسا فیصلہ صادر کیا ہے، جو نہ صرف ملک کے وفاقی ڈھانچے کو مضبوطی عطا کرتا ہے بلکہ جمہوری عمل میں ریاستی گورنروں کی غیر ضروری مداخلت اور تاخیر پر مؤثر لگام بھی لگاتا ہے۔سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ ریاستی گورنر کی جانب سے صدرِ جمہوریہ کو غور کے لیے بھیجے گئے کسی بھی ریاستی بل پر صدر کو تین ماہ کے اندر فیصلہ لینا لازمی ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ عدالت نے صدر کے فیصلے کے لیے واضح وقت کی حد متعین کی ہے۔یہ فیصلہ اس وقت آیا جب عدالت تمل ناڈو کے گورنر آر این روی کی جانب سے اسمبلی کے منظور شدہ 10 بلوں کو روکنے اور بعد ازاں صدر کے پاس بھیجنے کے قانونی جواز پر غور کر رہی تھی۔ واضح رہے کہ یہ بلز تمل ناڈو اسمبلی سے منظور ہوچکے تھے، لیکن گورنر نے ان پر کارروائی سے انکار کرتے ہوئے انہیں صدر کے پاس بھیج دیا تھا، جس پر ریاستی حکومت نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا۔عدالت نے نہایت وضاحت کے ساتھ اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ گورنر کے پاس یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ کسی بل کو غیر معینہ مدت کے لیے روکے رکھیں۔ یہ بات آئین کے آرٹیکل 200 کے اصولوں کے منافی ہے، جس میں ریاستی گورنر کو تین متبادل راستے دیے گئے ہیں: بل کو منظور کرنا، اسے دوبارہ غور کے لیے اسمبلی کو واپس بھیجنا یا صدر کے پاس بھیج دینا۔ تاہم، عدالت نے صاف کیا کہ اس عمل کو تاخیر کا شکار نہیں کیا جا سکتا اور صدر کو بل موصول ہونے کے بعد تین ماہ کے اندر فیصلہ کرنا ہوگا۔ یہ فیصلہ 8 اپریل کو دیا گیا تھااور فیصلے کی کاپی گزشتہ شب سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر اپلوڈ کیا گیا۔
مانا جا رہا ہے کہ سپریم کورٹ کی یہ مداخلت نہ صرف تمل ناڈو جیسے حساس ریاستی ومرکزی تناؤ کے شکار صوبوں کے لیے مفید ہے بلکہ یہ ملک کےوفاقی ڈھانچے کی روح کے عین مطابق بھی ہے۔ یہ فیصلہ ان ریاستی گورنروں کے لیے بھی ایک سخت پیغام ہے جو جان بوجھ کر یا سیاسی ایما پر منتخب حکومتوں کے عمل میں تاخیر پیدا کر کے جمہوریت کی راہ میں رخنہ اندازی کی کوشش کرتے ہیں۔عدالت نے اپنے فیصلے میں وزارت داخلہ کی جانب سے سابقہ مشورے کو بنیاد بنایا ہے، جس میں کہا گیا تھا کہ صدر کو تین ماہ کے اندر اندر فیصلہ کرنا چاہئے۔ عدالت نے اس اصول کو آئینی تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ قرار دیا اور اسی کو بطور قانونی رہنمائی اپنایا ہے۔فیصلے میں مزید یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر کسی وجہ سے فیصلہ تین ماہ میں نہ ہو سکے تو اس کی تحریری وضاحت متعلقہ ریاست کو فراہم کی جانی چاہئے۔عدالت نے گورنر کے اس عمل کو بھی مسترد کر دیا ہے ،جس میں وہ ایک ہی بل کو دو بار صدر کے پاس بھیجتے ہیں۔ جسٹس جے بی پاردی والا اور جسٹس آر مہادیون کی دو رکنی بینچ نے واضح طور پر کہا کہ ایک بار صدر کو بل بھیجنے کے بعد دوبارہ اسی عمل کو دُہرانا غیر قانونی اور آئینی اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔ عدالت نے اس عمل کو’’قانونی خامی‘‘ قرار دیا ہے۔
سپریم کورٹ کےاس فیصلے کو جمہوریت پسند حلقوں نے خوش آئند قرار دیا ہے۔ کانگریس کے سینئر رہنما اور راجیہ سبھا رکن کپل سبل نے اسے وفاقیت کی فتح قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ایک تاریخی فیصلہ ہے، جو گورنروں کے کردار کو آئینی دائرے میں محدود کرتا ہے اور ان کی جانب سے جمہوری نظام میں رکاوٹ بننے کی روش کو روکتا ہے۔یہ امر خوش آئند ہے کہ عدالت نے ریاستی حکومتوں کو بھی ذمہ داری کا احساس دلایا ہے کہ وہ بھی مکمل تعاون کریں، سوالات کے جوابات بروقت دیں اور مرکز کے مشوروں پر جلد غور کریں تاکہ آئینی عمل میں کسی قسم کا تعطل پیدا نہ ہو۔
ظاہر ہے سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ نہ صرف ایک آئینی رہنمائی ہے بلکہ ایک سیاسی پیغام بھی ہے کہ کسی بھی سطح پر جمہوریت کو مفلوج کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی ہے۔ گورنر کا عہدہ آئینی ہے، سیاسی نہیں۔ اس کی ذمہ داری انتظامیہ کو سہولت فراہم کرنا ہے، رکاوٹ نہیں۔ اس فیصلے کے بعد امید ہے کہ آئندہ ریاستی گورنر عوامی مینڈیٹ کی بے توقیری نہیں کریں گے اور اسمبلی کی منظوری سے نکلنے والے قانون سازی کے عمل کو بلاجواز روکنے کی جرات نہیں کریں گے۔ اپنے اس فیصلے کے ذریعہ سپریم کورٹ نے ایک بار پھر ثابت کیا ہے کہ وہ نہ صرف آئین کا محافظ ہے بلکہ جمہوریت کا پختہ نگہبان بھی ہے۔ مانا جا رہا ہے کہ اس فیصلے سے جمہوریت کی جڑیں مزید مستحکم ہوں گی اور ریاستوں کو اپنے آئینی حقوق کے لیے ایک مضبوط قانونی سہارا میسر آئے گا۔ماہرین کے مطابق یہ فیصلہ محض ایک قانونی ہدایت نہیں بلکہ ایک اصولی اعلان بھی ہے کہ جمہوریت میں اختیار کا توازن ضروری ہے۔ حالیہ برسوں میں متعدد ریاستوں میں اس بات کے شواہد ملے ہیں کہ گورنر کے عہدے کو ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا ہے، خاص طور پر ان ریاستوں میں جہاں غیر بی جے پی جماعتیں اقتدار میں ہیں۔ اس فیصلے سے ان خدشات کا تدارک ہوتا ہے کہ وفاقی ڈھانچہ مرکز کے دباؤ میں کمزور نہ پڑے۔ اب یہ ریاستوں پر بھی لازم ہوگا کہ وہ عدالتی رہنمائی کی روشنی میں آئندہ قانون سازی کے مراحل کو مزید شفاف اور ذمہ دارانہ بنائیں۔ عدالت نے واضح کر دیا ہے کہ آئین صرف الفاظ کا مجموعہ نہیں بلکہ عمل کی دستاویز بھی ہے۔
*************