غزہ کے لوگ امن کے زیادہ مستحق ہیں

تاثیر 8  اپریل ۲۰۲۵:- ایس -ایم- حسن

غزہ کی سرزمین ایک بار پھر خون و آگ کے سمندر میں ڈوبی ہوئی ہے۔ 7 اکتوبر 2023 سے شروع اسرائیلی جارحیت نے اب تک 50 ہزار سے زائد فلسطینیوں کی جان لے لی ہے، جن میں مرد، خواتین، بچے اور بوڑھے بڑی تعداد میں شامل ہیں۔ حالیہ اعداد و شمار کے مطابق، صرف گزشتہ چند دنوں میں سیکڑوں افراد شہید ہوئے ہیں، جن میں بچوں کی تعداد تشویشناک حد تک زیادہ ہے۔ اقوام متحدہ کے اداروں اور امدادی تنظیموں کی رپورٹس بتاتی ہیں کہ غزہ میں ہر روز اوسطاً 100 بچے ہلاک یا زخمی ہو رہے ہیں۔ اس کے علاوہ، ہزاروں افراد ملبے تلے دبے ہوئے ہیں، جبکہ طبی سہولیات، خوراک، پانی اور ایندھن کی شدید قلت نے انسانی بحران کو مزید گہرا کر دیا ہے۔آج کی تاریخ میںغزہ کے حالات نہ صرف فلسطینیوں کے لیے بلکہ پوری انسانیت کے لیے ایک سوالیہ نشان بن چکے ہیں۔
غزہ میں اسرائیلی فوج کی بمباری مسلسل جاری ہے، اور اس کے نتیجے میں رہائشی علاقوں، اسکولوں، ہسپتالوں اور پناہ گاہوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ فلسطینی وزارت صحت کے مطابق، 7 اکتوبر 2023 سے اب تک 50,669 افراد شہید اور 115,225 زخمی ہو چکے ہیں۔ ان میں سے 70 فیصد سے زائد خواتین اور بچے ہیں، جن میں 5 سے 9 سال کے بچوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ صرف گزشتہ ہفتے میں 1,000 سے زائد بچوں کے ہلاک یا زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں، جو اس جنگ کے خوفناک رخ کو ظاہر کرتی ہیں۔ شمالی غزہ میں پانی کی سپلائی مکمل طور پر بند ہو چکی ہے، جبکہ جنوبی علاقوں میں رہائشی عمارتوں پر حملوں نے وہاں کے خاندانوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا ہے۔اس کے علاوہ، طبی اور ایمرجنسی عملے پر حملوں نے صورتحال کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔ فلسطین ہلال احمر سوسائٹی کے مطابق، حالیہ دنوں میں 15 طبی اہلکار شہید ہوئے، جنہیں جنگی مجرم قرار دیا جا رہا ہے۔ صحافیوں کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے، جیسے کہ محمد صالح برداویل اور ان کے خاندان کی شہادت اس کی ایک مثال ہے۔ غزہ کی 96 فیصد آبادی، یعنی 21 لاکھ سے زائد افراد، شدید غذائی عدم تحفظ کا شکار ہیں، اور قحط کا خطرہ سر پر منڈلا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق، ایک ماہ سے زائد عرصے سے کوئی امدادی سامان غزہ میں داخل نہیں ہو سکا ہے، جس سے اسپتالوں میں ایندھن اور ادویات ختم ہو چکی ہیں۔اس بحران کے پیچھے کئی عوامل کارفرما ہیں۔ اسرائیلی فوج کا دعویٰ ہے کہ یہ حملے حماس کے جنگجوؤں کے خلاف ہیں، لیکن بڑے پیمانے پر شہری ہلاکتیں اور بنیادی ڈھانچے کی تباہی اس دعوے کی نفی کرتی ہے۔ غزہ پر مکمل محاصرہ، سرحدی گزرگاہوں کی بندش اور امداد کی روک تھام نے شہریوں کو بنیادی سہولیات سے محروم کر دیا ہے۔ اقوام متحدہ کے ماہرین نے ان حملوں کو نسل کشی اور ’’نسلی تطہیر ‘‘ قرار دیا ہے، جو عالمی قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ اس کے علاوہ، عالمی برادری کی خاموشی اور مؤثر مداخلت کی کمی نے اسرائیل کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔
غزہ کے اس المیے کا حل فوری اور طویل مدتی اقدامات کا متقاضی ہے۔ سب سے پہلے، فوری جنگ بندی ناگزیر ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیرس نے بارہا جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے، لیکن اس پر عملدرآمد کے لیے عالمی دباؤ بڑھانا ہوگا۔ دوسرا، امدادی سامان کی بلا روک ٹوک ترسیل کو یقینی بنایا جائے۔ مصر کے ساتھ سرحد کھولنے اور محفوظ راہداریوں کے قیام سے خوراک، ادویات اورایندھن کی فراہمی ممکن ہو سکتی ہے۔تیسرا، اسرائیلی فوج کے جنگی جرائم کی تحقیقات کے لیے آزادانہ کمیشن قائم کیا جائے۔ عالمی عدالت انصاف (آئی سی جے) اور دیگر اداروں کو اس معاملے میں فعال کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ ذمہ داروں کا احتساب ہو۔ چوتھا، غزہ کے بنیادی ڈھانچے کی بحالی کے لیے عالمی فنڈز مختص کیے جائیں۔ اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام کے مطابق، جنگ سے ہونے والے نقصانات کی تلافی میں دہائیاں لگ سکتی ہیں، اس لیے فوری امداد کے ساتھ طویل مدتی منصوبہ بندی ضروری ہے۔
آخر میں، فلسطین اسرائیل تنازعے کے مستقل حل کے لیے سیاسی مذاکرات کو فروغ دیا جانا چاہئے۔دو ریاستی حل، جو اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں ممکن ہے، ہی اس خونریزی کو روک سکتا ہے۔ عالمی طاقتوں، خاص طور پر امریکہ اور یورپی یونین کو اسرائیل پر دباؤ ڈالنا ہوگا کہ وہ بین الاقوامی قوانین کا احترام کرے اور شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنائے۔ امن اور انسانی اقدار کے تحفظ کی تحریک سے جڑے ہوئے لوگوں کا ماننا ہے کہ غزہ کے موجودہ حالات انسانیت کے منہ پر ایک زور دار طمانچہ ہیں۔معصوم بچوں کی لاشیں، خواتین کی چیخیں اور بوڑھوں کی بے بسی دنیا کو یہ پیغام دے رہی ہے کہ اب عمل کا وقت ہے۔ اگر عالمی برادری نے اب بھی خاموشی اختیار کی تو یہ بحران نہ صرف غزہ بلکہ پورے خطے کو تباہی سے دوچار کر سکتا ہے۔ فوری جنگ بندی، امدادی ترسیل اور جنگی جرائم کا احتساب ہی وہ ابتدائی اقدامات ہیں، جو اس المیے کو روک سکتے ہیں۔ غزہ کو فوری طور پر امن کی ضرورت ہے۔ اور یہ امن وہاں کے لوگوں کے خون کے بدلے نہیں بلکہ عالمی ضمیر کے جاگنے سے ملنا چاہئے۔ اس کے لئے پوری دنیا کو شدت کے ساتھ اس احساس کا ہونا لازمی ہے کہ غزہ کے لوگ امن کے سب سے زیادہ مستحق ہیں۔
***************