پی ایم نریندر مودی کا سعودی عرب دورہ

تاثیر 22  اپریل ۲۰۲۵:- ایس -ایم- حسن

  پی ایم نریندر مودی سعودی عرب کے دو روزہ دورےپر ہیں۔ان کا یہ تاریخی دورہ بھارت کی سفارتی حکمت عملی اور عالمی تعلقات کو مضبوط بنانے کی کوششوں کا ایک اہم مظہر ہے۔ یہ دورہ، جو سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی دعوت پر ہوا ہے، نہ صرف بھارت اور سعودی عرب کے درمیان دوطرفہ تعلقات کو گہرا کرنے بلکہ خطے میں استحکام اور ترقی کے لئے ایک نئے باب کا آغاز بھی ہے۔ یہپی ایم مودی کا سعودی عرب کا تیسرا دورہ ہے، لیکن جدہ شہر کا یہ ان کا پہلا دورہ ہے۔ اس دورے کے دوران کم از کم چھ اہم مفاہمتی یادداشتوں (ایم او یوز) پر دستخط کیے جانے کی توقع ہے، جو مختلف شعبوں میں تعاو ن  کو وسعت دیں گے۔پی ایم مودی کے طیارے کو کل جیسے ہی سعودی فضائی حدود میں داخل کیا گیا، رائل سعودی ایئر فورس کے ایف۔15 لڑاکا طیاروں نے اسے خصوصی اسکورٹ فراہم کیا۔ یہ عظیم الشان استقبال بھارت اور سعودی عرب کے درمیان بڑھتی ہوئی قربت اور باہمی احترام کی علامت ہے۔کل جدہ میں ان کا استقبال شاہی اعزاز کے ساتھ کیا گیا،تھا جو اس دورے کی اہمیت کو مزید اجاگر کرتا ہے۔ یہ دورہ بھارت کی مغربی ایشیا کی پالیسی اور سعودی عرب کے ساتھ اسٹریٹجک شراکت داری کو مضبوط بنانے کی کوششوں کا ایک اہم حصہ ہے۔
اس دورے کا ایک اہم پہلوبھارت اورسعودی اسٹریٹجک پارٹنرشپ کونسل کی دوسری میٹنگ ہے، جس کی مشترکہ صدارت پی ایم  مودی اور ولی عہد محمد بن سلمان نے کی۔ اس میٹنگ کے دوران دفاع، تجارت، سرمایہ کاری، توانائی، اور عوامی روابط سمیت متعدد شعبوں میں تعاون کو فروغ دینے پر توجہ دی گئی۔حج2025 کے  انتظامات بھی اس دورے کا ایک اہم موضوع ہے۔بھارت کے لیے حج ایک انتہائی اہم مذہبی فریضہ ہے اور حکومت ہند اسے خصوصی ترجیح دیتی ہے۔بھارت کے سفیر برائے سعودی عرب، سہیل اعجاز خان کے مطابق سعودی حکومت اوربھارت کے درمیان حج کے انتظامات میں بہترین ہم آہنگی رہی ہے۔ 2025 کے لئےبھارت کا حج کوٹہ 1,75,025 ہے، جو 2014 میں 136,020 سے بڑھ کر ایک قابل ذکر اضافہ ہے۔ تاہم، نجی حج گروپ آپریٹرز کے معاہدوں میں تاخیر کی وجہ سے تقریباً 42,000بھارتی عازمین اس سال حج ادا نہیں کر سکیں گے۔ اس دورے کے دوران پی ایم مودی نے حج کوٹہ کے علاوہ جدید ڈیجیٹل سہولیات اور دیگر انتظامی بہتریوں پر بھی بات چیت کی، ہے جو مستقبل میں عازمین کے لیے سہولت فراہم کریں گی۔بھارت اور سعودی عرب کے درمیان حالیہ برسوں میں متعدد شعبوں میں تعاون میں اضافہ ہوا ہے۔
  توانائی کی حفاظت بھارت وسعودی تعلقات کی بنیاد رہی ہے، کیونکہ سعودی عرب بھارت کا تیسرا سب سے بڑا خام تیل فراہم کنندہ ہے، جو مالی سال 2024 میںبھارت کی 14.3 فیصد تیل کی ضروریات اور 18.2 فیصد ایل پی جی کی درآمدات کو پورا کرتا ہے۔ اس دورے کے دوران طویل مدتی تیل کے معاہدوں اور ڈاون اسٹریم تعاون پر بات چیت کی گئیہے۔ اس کے علاوہ، گرین ہائیڈروجن جیسے صاف توانائی کے شعبوں میں تعاون کو فروغ دینے کے لیے ایک اہم مفاہمتی یادداشت پر دستخط کیے جانے کی توقع ہے، جو دونوں ممالک کے پائیدار ترقی کے اہداف کی حمایت کرے گی۔دفاع  اور سکیورٹی تعاون بھی اس دورے کا ایک اہم ستون رہا۔بھارت اور سعودی عرب نے حالیہ برسوں میں مشترکہ فوجی مشقوںکے ذریعے اپنے دفاعی تعلقات کو مضبوط کیا ہے۔ اس کے علاوہ، سعودی عرب نےبھارت سے دفاعی سازوسامان، جیسے کہ 155 ملی میٹر ایڈوانسڈ ٹوڈ آرٹلری گن سسٹم (اے ٹی اے جی ایس) حاصل کیا ہے۔اس کے علاوہ  اس دورے کے دوران رفاہی صنعتوں میں تعاون، سائبر سکیورٹی اور سمندری تجارت کے تحفظ جیسے موضوعات پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا، جو خطے میں استحکام کے لیے اہم ہیں۔اس دورے سے ٹیکنالوجی، جدت، اور اسٹارٹ اپس کے شعبوں میں بھی نئے مواقع پیدا ہونے کی توقع ہے۔
سعودی عرب اپنے وژن 2030 پالیسی کے تحت معاشی تنوع کو فروغ دے رہا ہے، اوربھارت کی تکنیکی صلاحیت اس مقصد کے لیے ایک مثالی شراکت دار ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان ڈیجیٹل انفراسٹرکچر اور گرین انرجی پر مبنی منصوبوں میں سرمایہ کاری کے امکانات پر بھی غور کیا گیا۔ مزید برآں، انفراسٹرکچر پراجیکٹس میں سعودی سرمایہ کاری، خاص طور پربھارت کے سمارٹ سٹیز پروگرام اور نیشنل انویسٹمنٹ اینڈ انفراسٹرکچر فنڈ میں، دوطرفہ تعلقات کو مزید مضبوط کر سکتی ہے۔ پی ایم نے ایک فیکٹری کا بھی  دورہ کیا جہاں بڑی تعداد میںبھارتی کارکن کام کرتے ہیں، جوبھارتی تارکین وطن کے کردار کو اجاگر کرتا ہے۔پی ایم  مودی نے اپنے دورے کے دوران بھارتی برادری سے بھی ملاقات کی، جو سعودی عرب میں تقریباً 27 لاکھ افراد پر مشتمل ہے اور دونوں ممالک کے درمیان ایک زندہ پل کا کردار ادا کرتی ہے۔ یہ برادری نہ صرف معاشی طور پر بلکہ ثقافتی اور سماجی طور پر بھی بھارت اورسعودی تعلقات کو مضبوط بناتی ہے۔
مبصرین کے مطابق  پی ایم نریندر مودی کا سعودی عرب کا یہ دور  ہ بھارت کی سفارتی کامیابیوں کا ایک روشن باب ہے۔ یہ نہ صرف بھارت اور سعودی عرب کے درمیان اسٹریٹجک شراکت داری کو مضبوط کرتا ہے بلکہ خطے میں امن، استحکام اور معاشی ترقی کے لیےبھارت کے بڑھتے ہوئے کردار کو بھی اجاگر کرتا ہے۔مانا جا رہا ہے کہ  توانائی، دفاع،ٹیکنالوجی اور ثقافتی تعاون کے شعبوں میں نئے معاہدوں کے ساتھ، یہ دورہ دونوں ممالک کے لئے باہمی فائدے اور عالمی سطح پر اثر و رسوخ بڑھانے کا ایک اہم موقع فراہمکرنے والا ثابت ہوگا۔
**********