بھارت کی معاشی خودمختاری کا ا ستحکام ضروری

تاثیر 3  اپریل ۲۰۲۵:- ایس -ایم- حسن

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے مختلف ممالک پر نئے ٹیرف کے نفاذ کا اعلان عالمی تجارت کے لیے ایک بڑا دھچکہ ثابت ہوا ہے۔ ان ممالک میں بھارت بھی شامل ہے، جس کی امریکہ کو برآمد کی جانے والی اشیاء پر 26 فیصد ٹیرف عائد کیا گیا ہے۔ مانا جا رہا ہے کہ یہ اقدام نہ صرف بھارت اور امریکہ کے تجارتی تعلقات کو متاثر کرے گا بلکہ بھارتی معیشت اور برآمدات کے لیے بھی خطرے کی گھنٹی ہے۔
بھارت اور امریکہ کے درمیان تجارتی حجم 120 ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے، جس میں بھارت کو 35 ارب ڈالر سے زائد کا تجارتی سرپلس حاصل تھا۔ بھارت سے امریکہ کو برآمد کی جانے والی اہم مصنوعات میں دواسازی، ٹیکسٹائل، آئی ٹی خدمات، اور جواہرات شامل ہیں۔ نئے ٹیرف کے نتیجے میں ان مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا، جس سے ان کی مسابقت میں کمی آ سکتی ہے۔ بھارتی برآمد کنندگان کو یا تو منافع میں کمی کرنی ہوگی یا امریکی صارفین کو زیادہ قیمت ادا کرنی پڑے گی، جوڈیمانڈ میں کمی کا باعث بن سکتی ہے۔یہ ٹیرف بھارتی معیشت پر بھی منفی اثر ڈال سکتا ہے۔ بھارت کی مجموعی برآمدات میں امریکہ کا حصہ تقریباً 18 فیصد ہے، اور اس مخصوص منڈی سے حاصل ہونے والی آمدنی کئی اہم صنعتی شعبوں کے لیے بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ دواسازی کا شعبہ، جو امریکی منڈی پر خاصا انحصار کرتا ہے، بھاری نقصان اٹھا سکتا ہے۔ اسی طرح، ٹیکسٹائل اور چھوٹے پیمانے کی صنعتوں پر بھی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ ماہرین کے مطابق، اس فیصلے سے بھارت کو سالانہ 2.5 لاکھ کروڑ روپے تک کا نقصان ہو سکتا ہے، جو اس کی معاشی ترقی کی شرح کو 0.5 سے 1 فیصد تک کم کر سکتا ہے۔عالمی تجارتی میدان میں بھی بھارت کی پوزیشن کمزور ہو سکتی ہے۔ پہلے ہی بھارت چین اور دیگر ایشیائی ممالک کے مقابلے میں اپنی برآمدات کو مستحکم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ امریکی منڈی سے ہونے والی آمدنی کی کمی بھارت کی پیداواری صلاحیت اور سرمایہ کاری پر منفی اثر ڈال سکتی ہے۔ اس خلا کو پر کرنے کے لیے چین، ویتنام، اور دیگر ممالک موقع سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں، جو بھارت کے لیے طویل المدتی نقصان کا سبب بن سکتا ہے۔یعنی سچ کہا جائے تو سیاسی طور پر، یہ فیصلہ بھارت اور امریکہ کے تعلقات میں تناؤ پیدا کر سکتا ہے۔
بھارت نے حالیہ برسوں میں امریکی کمپنیوں کو اپنی منڈی میں رسائی دی اور دفاعی معاہدے کیے، لیکن ٹرمپ انتظامیہ کے اس اقدام سے بھارتی قیادت کو مایوسی ہو سکتی ہے۔ اگر بھارت جوابی ٹیرف عائد کرتا ہے، تو دونوں ممالک کے درمیان تجارتی جنگ چھڑ سکتی ہے، جو کسی کے بھی مفاد میں نہیں ہوگی۔سماجی سطح پر، اس فیصلے سے بھارت میں روزگار کے مواقع بھی متاثر ہو سکتے ہیں۔ برآمدی صنعتوں، خاص طور پر چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار، کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے، جس سے بے روزگاری میں اضافہ ہوگا۔ اگر کمپنیاں اپنی مصنوعات کی قیمتوں میں استحکام لانے کے لیے اخراجات میں کمی کرتی ہیں تو اس کا بوجھ مزدوروں پر پڑے گا، جس سے اجرتوں میں کمی اور کام کے حالات خراب ہو سکتے ہیں۔تاہم، یہ چیلنج بھارت کے لیے کچھ مواقع بھی پیدا کر سکتا ہے۔ اگر بھارتی حکومت اس موقع سے فائدہ اٹھا کر اپنی معاشی پالیسیوں کو بہتر کرے، تو وہ اپنی اندرونی پیداوار کو مستحکم کر سکتی ہے۔ ”میک ان انڈیا“  جیسے پروگراموں کو مزید فروغ دے کر نئی منڈیوں کی تلاش ممکن ہو سکتی ہے۔ اگر بھارت امریکی کمپنیوں کے ساتھ مذاکرات میں کامیاب ہو جاتا ہے اور کچھ تجارتی چھوٹ حاصل کر لیتا ہے، تو اس نقصان کو کم کیا جا سکتا ہے۔مجموعی طور پر، یہ فیصلہ بھارت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے، لیکن اسے مکمل تباہی کے طور پر نہیں دیکھا جا سکتا ہے۔ بھارتی معیشت میں لچک موجود ہے اور اس نے ماضی میں بھی ایسے جھٹکوں کا سامنا کیا ہے۔ اگر حکومت بروقت اور دانشمندانہ اقدامات کرے، تو یہ بحران مواقع میں بدلا جا سکتا ہے۔ تاہم، اس کے لیے فوری اور مؤثر حکمت عملی کی ضرورت ہے، ورنہ یہ بھارتی معیشت پر طویل المدتی اثرات مرتب کر سکتا ہے۔ بھارت کو اپنی معاشی خودمختاری اور استحکام کو ترجیح دینی ہوگی تاکہ وہ اس چیلنج سے کامیابی کے ساتھ نمٹ سکے۔