تاثیر 9 اپریل ۲۰۲۵:- ایس -ایم- حسن
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ عالمی سطح پر تیز رفتاری سے فیصلے لینے کے لیے مشہور ہو چکے ہیں۔ ان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے عالمی سفارتی منظرنامے میں مسلسل ہلچل دیکھنے کو ملی ہے۔ غزہ اور یوکرین میں قیام امن کی کوششیں، یمن پر بمباری اور اب ایران کے خلاف سخت گیر مؤقف، یہ سب ایسے اقدامات ہیں ،جنہوں نے عالمی امن کے امکانات کو مزید غیر یقینی بنا دیا ہے۔ خاص طور پر ایران سے متعلق امریکی پالیسی نے مشرق وسطیٰ کو ایک ممکنہ بڑی جنگ کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔
ایران، جو ہمیشہ امریکی صدور کی ترجیحات میں شامل رہا ہے، ٹرمپ کے لیے بھی ایک نامکمل مہم کی حیثیت رکھتا ہے۔ ان کے نزدیک یہ مسئلہ اب بھی وہی ہے جو ان کی صدارت کے آغاز میں تھا:’’ ایران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے کیسے روکا جائے؟‘‘ اگرچہ ایران مسلسل اس بات کی تردید کرتا آیا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام فوجی مقاصد کے لیے ہے، تاہم مغربی ممالک بالخصوص امریکہ کو یقین ہے کہ ایران کم از کم جوہری وار ہیڈ بنانے کی صلاحیت حاصل کرنا چاہتا ہے۔2015 میں ایران اور چھ عالمی طاقتوں(امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی، روس اور چین)کے درمیان ایک اہم معاہدہ طے پایا جسے ’’جوائنٹ کمپریہینسو پلان آف ایکشن ‘‘ (جے سی پی او اے) کہا جاتا ہے۔ اس معاہدے کے تحت ایران نے اپنے جوہری پروگرام کو محدود کرنے اور عالمی معائنہ کاروں کو رسائی دینے پر رضامندی ظاہر کی، جس کے بدلے میں اس پر عائد اقتصادی پابندیاں اٹھا لی گئیں۔ لیکن 2018 میں صدر ٹرمپ نے اچانک اس معاہدے سے امریکہ کو الگ کر لیا، یہ دعویٰ کرتے ہوئے کہ اس معاہدے سے ایران کو دہشت گرد تنظیموں جیسے حماس اور حزب اللہ کو مالی امداد فراہم کرنے میں مدد ملی۔اس فیصلے کے بعد امریکہ نے ایران پر ایک بار پھر سخت اقتصادی پابندیاں عائد کر دیں، جس کے جواب میں ایران نے بھی معاہدے کی کچھ شقوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے یورینیم کی افزودگی میں اضافہ کر دیا۔ انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے مطابق اگر ایران 60 فیصد افزودہ یورینیم کو ہتھیاروں کے معیار تک بڑھاتا ہے تو وہ تقریباً چھ ایٹمی بم بنانے کی صلاحیت حاصل کر سکتا ہے۔صدر ٹرمپ نے اپنے دورِ صدارت کے آغاز میں ہی ایران پر’’زیادہ سے زیادہ دباؤ‘‘ کی پالیسی کو دوبارہ زندہ کیا۔ رواں سال فروری میں انھوں نے ایک یادداشت پر دستخط کیے، جس کے تحت امریکی وزارت خزانہ کو ہدایت دی گئی کہ ایران کے ساتھ تجارت کرنے والے ممالک، بالخصوص ایرانی تیل خریدنے والوں پر پابندیاں عائد کی جائیں۔ اس کے ساتھ ہی ٹرمپ انتظامیہ نے سفارتی سطح پر بھی کوششیں تیز کر دی ہیں۔ حالیہ دنوں میں صدر ٹرمپ نے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کو ایک خط ارسال کیا، جس میں مذاکرات کی پیشکش کی گئی اور جلد معاہدہ طے پانے کی خواہش ظاہر کی گئی۔
اب اطلاعات ہیں کہ عمان میں دونوں ممالک کے حکام کے درمیان براہِ راست بات چیت کا امکان پیدا ہو گیا ہے۔ تاہم، امریکی پیغام واضح ہے: ’’یا تو معاہدہ کریں یا فوجی کارروائی کے لیے تیار رہیں‘‘۔ صدر ٹرمپ خود کہہ چکے ہیں کہ اگر مذاکرات ناکام ہوئے تو ایران کو ’’بڑا خطرہ ‘‘لاحق ہو سکتا ہے۔ایران کی اقتصادی حالت اس وقت شدید دباؤ میں ہے۔ افراط زر کی بلند شرح، گرتی ہوئی کرنسی اور عوامی بے چینی، ایرانی قیادت کو کسی حد تک نرم رویہ اختیار کرنے پر مجبور کر سکتی ہے۔ لیکن کسی بھی نئے معاہدے کے لیے جو شرائط امریکہ رکھ رہا ہے، وہ ایران کے لیے ناقابل قبول ہو سکتی ہیں۔ ان شرائط میں جوہری افزودگی کا مکمل خاتمہ، حزب اللہ اور حوثیوں کی حمایت سے دستبرداری اور علاقائی سرگرمیوں میں کمی شامل ہے۔دوسری جانب، اسرائیل بھی ایران کے خلاف سخت مؤقف رکھتا ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کھلے عام ایران کی جوہری تنصیبات کو لیبیا کی طرز پر مکمل طور پر ختم کرانے کی بات کر چکے ہیں۔ لیکن ایران کے لیے یہ مطالبہ تسلیم کرنا ممکن نہیں کیونکہ جوہری ٹیکنالوجی اب اس کے سائنسی ماہرین کے لیے کوئی راز نہیں رہی۔ مزید برآں، ایران کی کئی تنصیبات زیر زمین بنکروں میں موجود ہیں ،جنہیں تباہ کرنا انتہائی مشکل ہے۔فوجی کارروائی کا آپشن بظاہر قابل عمل نہیں لگتا کیونکہ اس کے لیے نہ صرف امریکہ کی فضائی مدد بلکہ زمینی افواج کی بھی ضرورت ہو گی۔ اس کے نتیجے میں ایک ہمہ گیر علاقائی جنگ چھڑ سکتی ہے، جو خود ٹرمپ کے اس وعدے کے برخلاف ہو گی کہ وہ امریکہ کو’’ہمیشہ جاری رہنے والی جنگوں‘‘میں نہیں جھونکیں گے۔ اسی لیے بظاہر امریکہ اس وقت سفارتی حل پر زور دے رہا ہے، چاہے اسرائیل اس سے خوش نہ ہو۔صدر ٹرمپ نے فریقین کو مذاکرات کے لیے دو ماہ کی مہلت دی ہے، لیکن اگر معاہدہ نہ ہو سکا تو وہ طاقت کے استعمال کا حق محفوظ رکھ رہے ہیں۔ تاہم یہ امر قابل غور ہے کہ 2015 کے جے سی پی او اے پر اتفاق کرنے میں عالمی طاقتوں کو دو برس لگے تھے۔ ایسے میں جلد بازی کی سفارت کاری نہ صرف غیر مؤثر ہو سکتی ہے بلکہ خطے کو ایک تباہ کن جنگ کی طرف بھی دھکیل سکتی ہے۔دنیا کو اس وقت ایک ٹھوس، پائیدار اور منصفانہ حل کی ضرورت ہے نہ کہ عجلت میں کیے گئے فیصلوں کی۔ امن کی راہ مذاکرات اور باہمی افہام و تفہیم سے ہی نکلے گی، دباؤ اور دھمکیوں سے نہیں۔