تاثیر 29 اپریل ۲۰۲۵:- ایس -ایم- حسن
پہلگام حملہ کے صدمے اور غم میںابھی تک پور ا ملک ڈوبا ہوا ہے۔ اس سانحے نے کشمیری عوام کے جذبات کو بھی شدید مجروح کیا ہے، جنہوں نے اپنی جانوں کی پروا کیے بغیر سیاحوں کی حفاظت کی ہر ممکن کوشش کی۔22 اپریل سے اب تک اہل کشمیر خون کے آنسو روتے اور اس حملے کی بھرپور مذمت کرتے رہے ہیں۔انھوں نے سڑکوں پر احتجاج کیا اور مہلوکین کے اہل خانہ سے گہری ہمدردی کا اظہاربھی۔ وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کے مطابق کٹھوعہ سے کپواڑہ تک کوئی گاؤں ایسا نہیںہے، جہاں عوام نے اس حملے کے خلاف آواز نہ اٹھائی ہو۔ یہ احتجاج اور ہمدردی اس بات کا ثبوت ہے کہ کشمیری عوام ملک کے دیگر شہریوں کے ساتھ کھڑے ہیں اور ان حملہ آوروں کے ساتھ کسی طور وابستہ نہیں ہیں، جنہوں نے بے گناہ سیاحوں کی جانیں لیں۔اس سانحے کے دوران کشمیریوں کے جذبۂ ایثار اور انسانیت کی اعلیٰ مثال دیکھنے کو ملی۔ ایک نوجوان، سید عادل حسین شاہ نے سیاحوں کو بچانے کے لیے اپنی جان قربان کر دی، جو کشمیری عوام کے عظیم کردار کی عکاسی کرتا ہے۔ اسی طرح، مقامی لوگوں نے متاثرین کو فوری امداد فراہم کرنے اور انہیں ہر طرح سے تسلی دینے کی ہر ممکن کوشش کی۔ کشمیریوں کی گفتگو اور ان کے آنسوؤں سے عیاں ہے کہ وہ متاثرہ خاندانوں کے درد کو اپنا درد سمجھتے ہیں۔ اگر ان کے بس میں ہوتا تو وہ ہر قیمت پر سیاحوں کی جان بچاتے، بالکل اسی طرح جیسے انہوں نے اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر امدادی کاموں میں حصہ لیا۔اس سانحے کے بعد کشمیری عوام نے جس جذبۂ انسانیت اور یکجہتی کا مظاہرہ کیا ، اسے ہر سطح پر سراہنے اور اس کی قدر کرنے کی ضرورت ہے۔
وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے گزشتہ روز کشمیر اسمبلی میں اپنے خطاب میں اہل کشمیر کے جذبات کی ترجمانی کی تھی۔ انہوں نے کہا تھا کہ چونکہ وہ وزیر اعلیٰ اور وزیر سیاحت ہیں، سیاحوں کی حفاظت ان کی ذمہ داری تھی۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہاتھا کہ ان کے پاس الفاظ نہیں کہ وہ معافی مانگ سکیں۔ انہوں نے صاف لفظوں میں کہا کہ ’’ہم (اہل کشمیر) میں سے کوئی اس حملے کے ساتھ نہیں ہے۔ ان لوگوںنے تو ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔‘‘ ان کے اس موقف نے نہ صرف کشمیری عوام کے درد کو اجاگر کیا بلکہ اسے سیاسی سطح پر بھی مضبوطی بخشی۔ اپوزیشن لیڈر سنیل شرما نے بھی عمر عبداللہ اور اسپیکر عبدالرحیم راتھر کی اس حوالے سے کی گئی کوششوں کو سراہا، جو ایک آل پارٹی میٹنگ اور اسمبلی کے خصوصی اجلاس کے انعقاد کی صورت میں سامنے آئیں۔
یہ سیاسی اتفاق رائے اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ پورا کشمیر اس سانحے کے خلاف متحد ہے۔ ظاہر ہے یہ سب کچھ اس لئے ہوا کہ کشمیر ایک مرکز کے زیر انتظام علاقہ ہے، اور اس کی سیکیورٹی کی ذمہ داری مرکز پر عائد ہوتی ہے۔ اس کے باوجود، کشمیری عوام کی جانب سے اس حملے کی مذمت اور سیاحوں کے تحفظ کے لئے کی گئی کوششوں نے یہ واضح کر دیا کہ وہ اس دہشت گردی کے خلاف ہیں۔ لیکن، افسوس کی بات یہ ہے کہ اس یکجہتی اور قربانی کے باوجود، ملک کے کچھ حصوں میں نفرت اور تعصب کی آگ بھڑکائی جا رہی ہے۔ خاص طور پر اتراکھنڈ، پنجاب اور اتر پردیش میں زیر تعلیم کشمیری طلبہ کو ہراساں کیا جا رہا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق، پچھلے دنوں سوشل میڈیا پر ان طلبہ کے خلاف ایک منظم مہم چلائی گئی، جس میں انہیں علاقہ چھوڑنے یا سنگین نتائج بھگتنے کی دھمکیاں دی گئیں۔ رپورٹ میں متعدد طلبہ کے بیانات نقل کیے گئے، جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اس ہراسانی کی وجہ سے خوفزدہ ہیں۔ ان طلبہ کا کہنا ہے کہ پہلگام حملے سے ان کا کوئی تعلق نہیں، اور وہ صرف اپنی تعلیم کے لیے گھر بار چھوڑ کر آئے ہیں۔ظاہر ہےیہ ہراسانی نہ صرف غیر انسانی ہے۔اس طرح کی حرکتوںسے ملک کی وحدت اور یکجہتی کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔ سوال پید ا ہوتا ہے کہ کیا یہ نفرت پھیلانے والے، شعوری طور پر یا غیر شعوری طور پر، ان دہشت گردوں کے ایجنڈے کو تقویت نہیں دے رہے، جنہوں نے پہلگام حملے کے ذریعے ملک کو تقسیم کرنے کی کوشش کی؟ کشمیری طلبہ کو اس مشکل وقت میں خوفزدہ کرنے کے بجائے انہیں تحفظ، اعتماداور تسلی کی ضرورت ہے۔ انہیں ابھی یہ یقین دلانے کی ضرورت ہے وہ اس ملک کا اٹوٹ حصہ ہیں اور ان کی حفاظت ہر شہری کی طرح ریاست کی ذمہ داری ہے۔
حکومت کو چاہئے کہ ا س زہر افشانی کے سلسلے کو روکنے کے لیے فوری اور ٹھوس اقدامات کئے جائیں۔ سوشل میڈیا پر نفرت انگیز مہم چلانے والوں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے۔ اس کے ساتھ، تعلیمی اداروں کو ہدایت دی جائے کہ وہ کشمیری طلبہ کی حفاظت اور ان کے ساتھ یکساں سلوک کو یقینی بنائیں۔پہلگام سانحہ ایک بڑا المناک واقعہ ہے۔دوسری طرف اس سے یہ سبق بھی ملتا ہے کہ نفرت اور تقسیم کے مقابلے میں محبت اور اتحاد ہی وہ طاقت ہے ،جو ہمیں مضبوط بناتی ہے۔ کشمیری طلبہ کے ساتھ ہمدردی اور انصاف کا سلوک نہ صرف ان کے بنیادی حقوق کی پاسداری ہوگی بلکہ اس سے ملک کی سالمیت اور ہم آہنگی کو بھی تقویت ملے گی۔ اب وقت ہے کہ ہم سب مل کر اس زخم کو مندمل کریں اور ایک ایسی مثال قائم کریں ،جو نفرت کے ایجنڈے کو کسی بھی طرح سے کامیاب نہیں ہونے دے۔
***************