بانسبیڑیا سے مرکزی حکومت کے خلاف علماء کرام کی للکار ہمارا وقف قانون واپس کرو

تاثیر 18  اپریل ۲۰۲۵:- ایس -ایم- حسن

ہگلی, 18/اپریل (محمد شبیب عالم) ” ہندوستان کا مسلمان زندہ باد،  ہمارا وقف قانون ہمیں واپس کرو، ہم پر زور ظلم کرنا اب برداشت نہیں ” ایسے اور کئی طرح کے نعروں سے پورا بوڑو پاڑہ موڑ ڈنگل ہاٹ گونج اٹھا ۔ لوگوں کی ہجوم دیکھنے لائک تھی ۔ وہیں اچانک بدلتے موسم کےبعد تیز بارش اور ہواؤں کی پرواہ کئے ہزاروں کی تعداد میں لوگ جمع ہوئے تھے ۔ ہاتھوں میں مختلف قسم کی تختیاں لئے نعرے لگارہے تھے ۔ ” ہم وقف کو لیکر مئی قانون کو نہیں مانیں گے ” ہمارا قانون واپس کرو ” ہم اس قانون کی منسوخی چاہتے ہیں۔ اسکے علاوہ نعرے تکبیر اللہ  اکبر کی صدائیں گونجتی رہی۔ گزشتہ کل بانسبیڑیا کے کچھ آئمہ حضرات کےموگرا تھانہ پولیس کی ایک خصوصی میٹنگ آج کی وقف ترمیمی قانون کو لیکر احتجاجی جلسہ کو لیکر ہوئی تھی۔ جہاں یہ طئے پایا کہ بعد نمازِ جمعہ موگرا تھانہ کے تحت بانسبیڑیا بوڑو پاڑہ موڑ پر ایک احتجاجی جلسہ منعقد کی جائے گی۔ یہاں اس بات کو بار بار یاد دلائی گئی کہ ” جلوس نہیں”  احتجاجی جلسہ” ہوگا۔
آج اسی ہدایت کےمطابق نمازِ جمعہ سے فارغ ہونے کےبعد تمام لوگوں کی قدم بوڑو پاڑہ کے جانب تھی۔ اس احتجاجی جلسہ کے مدنظر پولیس کی سخت چوکسی دیکھنے کو ملی ۔ خاصی تعداد میں پولیس عملے لوگوں کی بھیڑ کےساتھ ساتھ ادھر ادھر راستے ، چوراہے پر تعینات دیکھے۔ جلسے کا آغاز نہایت ہی عقیدت و احترام کےساتھ آئمہ حضرات نے کیا۔ جس میں بانسبیڑیا گنجس جامع مسجد کے امام نعمت اللہ رضوی ، جناتی مسجد اسلام پاڑہ کے امام مطیع الرحمٰن ، غازی درگاہ شاہی مسجد کے امام قمرالدین حشمتی ، بوڑو پاڑہ صوفیہ مسجد کے امام وضیح القمر ، امام سمیع احمد اور دیگر کئی مساجد کے آئمہ حضرات اس جلسے میں شامل ہوئے ۔ یہاں ایک چھوٹی اسٹیج بنائی گئی تھی جہاں سے ایک ایک کرکے باری باری سے آئمہ حضرات وقف ترمیمی قانون کے علاوہ کسطرح سے ملک کے مسلمانوں کے خلاف آئے دن نئی نئی حرکتیں کررہے ہیں ۔ کیسے مرکزی حکومت اور اسکے لیڈران ملک کے مسلمانوں کو نیچا دیکھانے کے لئے حربہ استعمال کررہی ہے ۔ آئے دن مسلمانوں کے خلاف نازیبا الفاظ انکے جانب سے ادا کی جارہی ہے ۔ اسکے علاوہ مسلمانوں کی جائداد، مسجد، یہاں تک کہ قبروں کو بھی نشانہ بنایا جارہا ہے۔ کیا ہم اس ملک کے نہیں ہیں ؟ یا کیا یہ ملک ہمارا نہیں ہے ؟ کیا یہ بھول گئے ہیں کہ اس ملک کے لئے ہمارے آبا و اجداد کسطرح سے قربانیاں دی ہیں ؟ اگر نہیں تو پھر انڈیا گیٹ کی دیواروں پر ملک کےلئے شہید ہونے والے ہمارے آبا و اجداد کے نام کیسے ہیں؟
اسکے علاوہ یہ وقف ترمیمی قانون کے نام پر ہمارے اوپر ایک اور سازشیں رچی جارہی ہے ہمیں اب ہماری جائداد کو ہم سے چھین لینے کی تیاریاں کی جارہی ہے۔ آخر یہ کیسا قانون ؟ کیوں ہم پر زور زبردستی تھوپنے کی کوششیں کررہے ہیں۔ آپ کہتے ہیں کہ ” سب کا ساتھ، سب کا بسواس اور سبکا وکاس ” ان تینوں الفاظ میں ہم کہاں ہیں ؟ کیا آپ ہمارے ساتھ ہیں ؟ کیا ہم پر بسواس ہے ؟ ہمارا وکاس کیا ہوا؟ بس ہمارے اوپر بولڈوجر چلانے جارہے ہیں ہماری مکانوں پر ، مسجدوں پر ، درس گاہوں پر یہاں تک کہ قبروں پر اوپر سے کہتے ہیں کہ ملک کے غریب مسلمانوں کی ہماری فکر ہے یہ کیسی فکر جناب ہماری وقف کی گئی زمین جائداد پر قبضہ کررہے ہیں غیرقانونی بتاکر اسکے علاوہ ہماری وقف تنظیم ، بورڈ ، کمیٹی میں غیر مسلمانوں کو شامل کررہے ہیں ایسا کیوں مال ہمارا اور اسکی نگرانی اس پر حکومت آپ کرینگے؟ یہ کیسا قانون یہ کیسا انصاف ؟ ہاں اگر واقعی ملک اور یہاں کے مسلمانوں سے اتنی ہی ہمدردی ہے تو اس ملک میں ” وقف ” جیسے کئی غیر مسلموں کے ادارے ہیں ان کی نگہبانی کےلئے ہمیں اسکا ممبر بنائیں، انکی تنظیم کی نگرانی ہمارے ہاتھوں میں بھی سونپیں کیوں؟