تاثیر 6 اپریل ۲۰۲۵:- ایس -ایم- حسن
صدر جمہوریہ دروپدی مرمو کی منظوری کے بعد متنازع وقف ترمیمی بل، 2025 اب باقاعدہ قانون یعنی وقف ترمیمی ایکٹ،2025 کی شکل میں نافذ العمل ہو چکا ہے۔ یہ قانون، جو’’امید‘‘ (یو نائیٹڈ وقف مینجمنٹ، امپاورمنٹ، افسینسی اینڈڈیولپمنٹ ایکٹ) کےنام سے موسوم ہے، 1995 کے وقف قانون میں بنیادی ترامیم کرتا ہے۔ حکومت کا مؤقف ہے کہ اس قانون کا مقصد وقف جائیدادوں کا تحفظ، انتظامی شفافیت اور جوابدہی کو یقینی بنانا ہے، تاکہ مستحقین تک وسائل کی منصفانہ رسائی ممکن ہو سکے۔مرکزی وزیر جناب کیرن ریجیجو نے پچھلے دنوں پارلیمنٹ میں ، بل پر بحث کے دوران یہ دعویٰ کیا تھاکہ اس قانون سے کسی کی مذہبی آزادی متاثر نہیں ہوگی بلکہ ان لوگوں کو حق ملے گا جو وقف سے متعلق مقدمات میں انصاف سے محروم رہ جاتے ہیں۔ تاہم، حزب اختلاف اور متعدد مسلم تنظیموں نے اس قانون پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے اور اسے ایک مخصوص مذہبی برادری کو نشانہ بنانے کی کوشش قرار دیا ہے۔
1995 کے وقف قانون میں موجود ’’وقف بائی یوزر ‘‘کی شق کے موجودہ قانون سے اخراج کے حوالے سے سابق مرکزی وزیر سلمان خورشید کے مطابق مستقبل کے لیے اس شق کا خاتمہ ایک مثبت قدم ہو سکتا ہے، بشرطیکہ سابقہ جائیدادوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔ تاہم، جن جائیدادوں کی دستاویزات مکمل نہیں ہیں، وہاں قانونی پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔ نئے قانون کے مطابق وقف بورڈ میں غیر مسلم افراد کی تقرری کے حوالے سے مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ کی وضاحت ہے کہ غیر مسلم افراد صرف انتظامی امور میں شامل ہوں گے، مذہبی معاملات میں نہیں۔ لیکن ناقدین کے مطابق بھارت میں کسی بھی مذہبی ادارے میں دیگر مذاہب کے افراد کی تقرری ایک نایاب مثال ہے، اور یہ مذہب و ریاست کے توازن کو متأثر کر سکتی ہے۔نئے قانون کے تحت، زمین وقف کی ہے یا نہیں اس کے تعین میں ضلع کلکٹر کے کردار پر بھی انگلیاں اٹھ رہی ہیں۔ اس حوالے سے ماہرِ آئین سنجے ہیگڑے کا کہنا ہے کہ اس سے انصاف کے عمل پر شبہات پیدا ہوتے ہیں۔اگرچہ قانون میں شفافیت کی بات کی گئی ہے، لیکن یہ واضح نہیں کہ وقف جائیدادوں کی آمدنی اور اس کے استعمال کی نگرانی کس طرح کی جائے گی، اور کیا یہی اصول دیگر مذہبی اداروں پر بھی لاگو ہوں گے؟موجودہ سیاسی صورتحال خاص طور پر جب کہ رواں سال کے آخر میں بہار اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں، نئے وقف قانون ’’امید‘‘کے تناظر میںمعروف صحافی نیرجا چودھری کا ماننا ہے کہ یہ قانون ریاست کی سیاست میں ایک نئی تقسیم پیدا کر سکتا ہے، جہاں مسلم ووٹرز کئی حلقوں میں فیصلہ کن حیثیت رکھتے ہیں، وہ جنتا دل یونائٹڈ کے لئے مایوسی کا سبب بن سکتے ہیں۔ حالانکہ جنتا دل یونائیٹڈ کے لیڈر راجیو رنجن قانون کا دفاع کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر نتیش کمار اس کی حمایت کر رہے ہیں تو ظاہر ہے یہ مسلمانوں کے خلاف نہیں ہو سکتا ہے۔ مگر ماہرین کے مطابق جے ڈی یو کی دبے پاؤں ، پارلیمنٹ میں بل کی حمایت کی وجہ سے بہار کے ان پسماندہ مسلمانوں کی حمایت کھسک سکتی ہے، جو کل تک نتیش کمار کی طاقت سمجھے جاتے تھے۔یہ بھی مانا جا رہا ہے کہ بی جے پی نے سیاسی مہارت کے ساتھ اتحادی جماعتوں کو ساتھ لے کر متعلقہ بل منظور کروایا ہے۔ ٹی ڈی پی جیسی جماعتوں نے ابتدائی مرحلے میں بل میں متعدد ترامیم تجویز یں پیش کی تھیں، جنھیںتسلیم کر لیا گیا تھا، جس سے انہیں یہ تاثر ملا کہ نئے قانون سے زیادہ نقصان نہیں ہوگا۔یاد رہے، 2013 میں یو پی اے حکومت نے دہلی کی 123 جائیدادوں کو وقف بورڈ کے حوالے کیا تھا۔ سلمان خورشید کے مطابق یہ فیصلہ برنی کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میںلیا گیا تھا، جن جائیدادوں کی تاریخی و مذہبی حیثیت تسلیم شدہ تھی۔ حالیہ ترمیم سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے، مگر سیاسی بحث میں اسے بار بار جوڑا جا رہا ہے۔
تمامتر مثبت و منفی خیالات کے درمیان حقیقت یہی ہے کہ وقف ترمیمی قانون ایک پیچیدہ مذہبی، سماجی اور سیاسی مسئلے کے بیچ آ کھڑا ہوا ہے۔ اگرچہ اس میں انتظامی بہتری اور شفافیت کا دعویٰ کیا جا رہا ہے، مگر اقلیتی برادری میں شکوک و شبہات بڑھتے جا رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب دوسرے مذاہب کے اداروں پر ایسی اصلاحات لاگو نہیں ہوتیں، تو صرف وقف اداروں کو نشانہ کیوں بنایا جا رہا ہے؟ سوال یہ بھی اٹھائے جا رہے ہیں کہ جب ’’مسلم مکت پارلیمنٹ ‘‘ اور ’’مسلم مکت کابینہ‘‘ بی جے پی کا سیاسی ایجنڈا ہے تو وہ کیسے پوری ایمانداری کے ساتھ ’’امید‘‘ کی آبرو کو بچا پائیگی ۔جبکہ بھارت کے آئین میں دی گئی مذہبی آزادی اور سیکولرازم کے اصولوں کے مدنظریہ ضروری ہے کہ اس طرح کی قانون سازی میںشفایت، جامعیت اور سب کی مشاورت سے کی جائے۔ویسے تمامتر شکوک و شبہات کے درمیان اگر یہ قانون حسب وعدہ وقف املاک کے خاطر خواہ تحفظ، بدعنوانی کے خاتمے اور اصلاحات کا ذریعہ بنتا ہے، تو واقعی یہ ایک تاریخی قدم ہوگا، بصورت دیگر یہ صرف سیاسی تقسیم کا ایک اور متنازع باب بن کر رہ جائے گا۔