تاثیر 5 اپریل ۲۰۲۵:- ایس -ایم- حسن
پارلیمنٹ سے وقف ترمیمی بل 2025 کی منظوری کے بعد ملک کی سیاسی، قانونی اور سماجی فضا میں ایک نئی ہلچل پیدا ہو گئی ہے۔ آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم)، کانگریس، عام آدمی پارٹی سمیت متعدد اپوزیشن جماعتوں نے اسے سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے، جبکہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ (اےآئی ایم پی ایل بی) نے صورتحال سے آگاہ کرنے کے مقصد سے صدر جمہوریہ دروپدی مرموسے ملاقات کے لئےوقت دینے کی درخواست کی ہے۔جبکہ دیگر مسلم تنظیموں نے ملک گیر احتجاجی مہم شروع کر رکھی ہے۔یہ بل وقف ایکٹ 1995 میں کئی بنیادی ترامیم متعارف کراتا ہے۔ اس کے تحت ضلع کلکٹرز کو وقف جائیدادوں کے تنازعات کے فیصلے کا اختیار دیا گیا ہے، وقف بورڈز میں غیر مسلم اراکین کی شمولیت کو لازمی بنایا گیا ہےاور رجسٹریشن کے نئے سخت قوانین لاگو کیے گئے ہیں۔ حکومت کا مؤقف ہے کہ ان ترامیم کا مقصد وقف بورڈز میں بڑھتی ہوئی بدعنوانی پر قابو پانا اور شفافیت کو فروغ دینا ہے۔ تاہم، ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ ترامیم دراصل مسلمانوں کی مذہبی معاملات میں حکومت کی مداخلت اور مسلم اداروں پر کنٹرول کے مترادف ہیں۔
بھارت کے آئین کا آرٹیکل 25 اور 26 شہریوں کو مذہبی آزادی اور مذہبی اداروں کے آزادانہ انتظام و انصرام کا حق فراہم کرتا ہے، جبکہ آرٹیکل 14 مساوات کی ضمانت دیتا ہے۔ ناقدین کے مطابق یہ ترامیم ان آئینی دفعات کی سنگین خلاف ورزی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وقف املاک خالصتاً مذہبی اور فلاحی مقاصد کے لیے مخصوص ہوتی ہیں، جن میں حکومت کی مداخلت نہ صرف آئینی حدود سے تجاوز ہے بلکہ سیکولرازم کی روح کے بھی منافی ہے۔ملک بھر میں اس بل کے خلاف احتجاج زور پکڑ رہا ہے۔ دہلی ، پٹنہ، کولکاتا، حیدرآباد، بنگلورو اور احمدآباد میں مسلسل دھرنے، جلسے اور مظاہرے ہو رہے ہیں۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے اس بل کو’’مسلمانوں کے حقوق پر حملہ‘‘ قرار دیتے ہوئے اسے عدالتی محاذ پر چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اسدالدین اویسی کی قیادت میں اے آئی ایم آئی ایم نے پارلیمنٹ کے اندر اور باہر سخت مخالفت کی، جبکہ کانگریس نے اسے ’’آئین پر حملہ‘‘ قرار دیا ہے۔ عام آدمی پارٹی کا بھی مؤقف ہے کہ یہ بل اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کی عکاسی کرتا ہے۔دوسری طرف، بی جے پی حکومت اس بل کو ایک’’ اصلاحاتی اقدام‘‘ کے طور پر پیش کر رہی ہے۔ وزیر داخلہ امیت شاہ نے دعویٰ کیا ہے کہ اس بل سے مسلمانوں کے کمزور طبقات کو فائدہ پہنچے گا۔ ان کے مطابق، وقف املاک کے انتظام میں شفافیت لانا اور بدعنوانی کا خاتمہ ضروری ہے۔ تاہم، اپوزیشن اس مؤقف کو سیاسی چال اور ’’ہندوتوایجنڈے‘‘ کا حصہ قرار دیتی ہے، جس کا مقصد اقلیتوں کو مزید حاشیے پر دھکیلنا ہے۔اب فیصلہ سپریم کورٹ کے ہاتھ میں ہے، جو ماضی میں کئی بار پارلیمنٹ کے قوانین کو آئینی بنیادوں پر مسترد کر چکی ہے۔ مثلاً، 2018 میں انڈین پینل کوڈ (آئی پی سی) کے سیکشن 377 کے بعض حصے منسوخ کیے گئے اور شہریت ترمیمی ایکٹ(سی اے اے) پرعرضیاںابھی زیر سماعت ہیں۔
ماہرین کے مطابق معاملے کی سماعت کے دوران عدالت کے لئے یہ سوال یہ اہم ہوگا کہ آیا وقف ترمیمی بل آئین کے بنیادی ڈھانچے (بیسک اسٹرکچر) سے متصادم ہے یا نہیں۔ اگر یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ بل آرٹیکل 25، 26 یا 14 کی خلاف ورزی کرتا ہے تو عدالت اس کے متنازع حصوں کو کالعدم قرار دے سکتی ہے۔تاہم، عدالت کا فیصلہ صرف قانونی نکات تک محدود نہیں ہوگا۔ اس پر سیاسی دباؤ، عدالتی آزادی، سماجی حساسیت اور حالیہ عدالتی رویے بھی اثر انداز ہو سکتے ہیں۔گرچہ بعض حلقے سپریم کورٹ کی غیر جانب داری پر سوال اٹھاتے رہے ہیں، مگر یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ اسی عدالت نے اپنے کئی فیصلوں میں اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ بھی کیا ہے۔عدالت کا یہ رجحان واقعی امید کی کرن ہے۔ تاہم ،فی الوقت یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ سپریم کورٹ اس بل کو مکمل مسترد کرے گی یا نہیں۔ ممکن ہے کہ عدالت متنازع شقیں مثلاً غیر مسلم اراکین کی شمولیت، کلکٹرز کے اختیارات کو ختم کردے اور وقف بائی یوزر کے پروویزن کو جوڑتے ہوئے بل کے باقی حصے برقرار رکھے۔ دوسری صورت میں، بڑھتا ہوا احتجاج اور سیاسی دباؤ عدالت کو مکمل رد کی طرف بھی لے جا سکتا ہے۔بہر حال آج کی تاریخ میںوقف ترمیمی بل 2025 نہ صرف ایک قانونی تنازع ہے بلکہ یہ ملک کے جمہوری، سیکولر اور آئینی وقار مسئلہ بھی بن چکا ہے۔ ظاہر ہے آنے والا عدالتی فیصلہ صرف اس بل کی قانونی حیثیت کا تعین نہیں کرے گا بلکہ ملک کی سب سے بڑی اقلیتی آبادی کے دینی ، سماجی اور آئینی حقوق کے مستقبل کا رخ بھی واضح کرے گا۔