ذات پر مبنی سروے : سماجی تبدیلی کا پیش خیمہ

تاثیر 4 مئی ۲۰۲۵:- ایس -ایم- حسن

بھارت میں ذات پر مبنی مردم شماری کا اعلان ایک تاریخی فیصلہ ہے، جو سماجی انصاف، سیاسی حکمت عملی اور انتخابی فوائد کے پیچیدہ امتزاج کو ظاہر کرتا ہے۔ جولائی سے اگست 2025 کے درمیان شروع ہونے والی اس مردم شماری میں پہلی بار پوری آبادی کی ذاتوں کا اندراج کیا جائے گا۔ظاہر ہے آزاد بھارت کی تاریخ میں یہ ایک منفرد قدم ہے۔بلا شبہہ ملک میں ذات صدیوں سے سماجی درجہ بندی کا بنیادی ڈھانچہ رہی ہے۔ اعلیٰ ذاتوں، پسماندہ ذاتوں اور دلت و قبائلی گروہوں پر مشتمل یہ نظام سماجی، اقتصادی اور سیاسی وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کا سبب بنا ہے۔ بہار کے 2022 کے سروے کے مطابق، پسماندہ ذاتیں ریاست کی 63 فیصد آبادی پر مشتمل ہیں، جبکہ اعلیٰ ذاتیں صرف 15 فیصد ہیں۔ قومی سطح پر بھی کم و بیش یہی تناسب ہے۔تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ جہاں 60 فیصد سے زائد آبادی پسماندہ ذاتوں پر مشتمل ہے۔ اس کے باوجود، وسائل اور مواقع پر اعلیٰ ذاتوں کا غلبہ نسبتاََ زیادہ رہا ہے۔
مودی حکومت کا یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب اپوزیشن، خصوصاً کانگریس کے رہنما راہل گاندھی، طویل عرصے سے ذات پر مبنی مردم شماری کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ راہل نے پسماندہ ذاتوں کی تعلیمی اور اقتصادی حالت کو بہتر بنانے کے لئے اسے ایک لازمی قدم قرار دیا تھا۔ ماضی میں بی جے پی نے اس مطالبے کو ’’ذاتوں کی بنیاد پر تقسیم ‘‘کے طور پر مسترد کیا تھا، لیکن حالیہ اعلان سے ظاہر ہوتا ہے کہ سیاسی دباؤ اور انتخابی حکمت عملی نے حکومت کے موقف کو تبدیل کیا۔ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ فیصلہ راہل گاندھی کو سیاسی کریڈٹ ملنے سے روکنے اور پسماندہ ذاتوں کے ووٹ حاصل کرنے کی کوشش ہے، خصوصاً بہار جیسے انتخابی طور پر اہم صوبوں میں جہاں بی جے پی اتحادیوں کے ساتھ اقتدار میں ہے۔
ذات پر مبنی مردم شماری سماجی انصاف کے لئے ایک اہم موقع فراہم کرتی ہے۔ پسماندہ ذاتوں اور دلتوں کی معاشی، تعلیمی اور سماجی حالت کے بارے میں درست اعداد و شمار پالیسی سازی کو زیادہ مؤثر بنا سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر، بہار کے سروے نے واضح کیاتھا کہ پسماندہ ذاتیں آبادی کا سب سے بڑا حصہ ہونے کے باوجود وسائل سے محروم ہیں۔ اس طرح کے اعداد و شمار ریزرویشن کی پالیسیوں کو آبادی کے تناسب سے ہم آہنگ کرنے اور نجی شعبے، جیسے کہ یونیورسٹیوں، میں بھی اسے نافذ کرنے کے مطالبات کو تقویت دے سکتے ہیں۔ کانگریس کی حالیہ قرارداد میں بھی یہی تجویز دی گئی ہے کہ 50 فیصد ریزرویشن کی حد کو بڑھایا جائے اور ہر فرد کی سماجی و اقتصادی حالت کا اندراج کیا جائے۔سیاسی پالیسی ساز پرشانت کشور کے مطابق، یہ مردم شماری اس وقت تک مؤثر نہیں ہوگی، جب تک اس کے نتائج کی بنیاد پر ٹھوس اقدامات نہ کئے جائیں۔ درست اعداد و شمار سے حکومت کو تعلیم، صحت اور ملازمتوں میں پسماندہ طبقات کی نمائندگی بڑھانے کے لیے منصوبہ بندی کرنے میں مدد ملے گی۔ ماہرین کے مطابق ذات پر مبنی سروے ہندوؤں کے ساتھ ساتھ مسلم کمیونٹیز میں بھی پسماندہ ذاتوں کی حالت کو اجاگر کر سکتا ہے، جہاں 81 فیصد آبادی پسماندہ ذاتوں پر مشتمل ہے لیکن وسائل پر اعلیٰ ذاتوں کا غلبہ ہے۔
حالانکہ اس فیصلے کے کچھ ممکنہ منفی پہلو بھی ہیں۔ سب سے بڑا خدشہ یہ ہے کہ ذات پر مبنی مردم شماری سماجی تقسیم کو مزید گہرا کر سکتی ہے۔ مودی حکومت کے ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ اعلان سیاسی فائدے کے لئے کیا گیا ہے، خصوصاً بہار کے انتخابات اور ہندوؤں کو متحد کرنے کی حکمت عملی کے تناظر میں۔ اس کے علاوہ، اگر اعداد و شمار جمع کرنے کے بعد مناسب اقدامات نہ کیے گئے، جیسا کہ بہار کے سروے کے ساتھ ہوا، تو یہ عوام کے اعتماد کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ایک اور چیلنج اعداد و شمار کے درست اندراج اور اس کی رازداری کو یقینی بنانا ہے۔ انڈیا جیسے متنوع ملک میں، جہاں ذات ایک حساس سماجی معاملہ ہے، اس عمل میں شفافیت اور غیر جانبداری بہت ضروری ہے۔ مزید برآں، حالیہ بھارت پاک کشیدگی اور سکیورٹی کے مسائل کے تناظر میں، حکومت کے لئے یہ ضروری ہوگا کہ وہ اس مردم شماری کو سیاسی تنازعات سے الگ رکھے۔ چنانچہ بیشتر لوگوں کا ماننا ہے کہ ملک میں ذات پر مبنی مردم شماری سماجی مساوات کی طرف ایک اہم قدم ہو سکتی ہے، بشرطیکہ اسے سیاسی فوائد کے بجائے عوامی بہبود کے لئے استعمال کیا جائے۔ یہ سروے پسماندہ ذاتوں اور دلتوں کے لیے منصفانہ مواقع کو یقینی بنانے کا موقع فراہم کرے گا، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہم پر سماجی ہم آہنگی کو برقرار رکھنے کی ذمہ داری بھی آئیگی۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں کو چاہئے کہ وہ اس عمل کو شفاف، جامع اور نتیجہ خیز بنانے کےلئے مل کر کام کریں۔ اگر یہ مردم شماری اپنے مقاصد حاصل کر لیتی ہے، تو یہ بھارت کے سماجی ڈھانچے میں تاریخی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے۔