تاثیر 14 مئی ۲۰۲۵:- ایس -ایم- حسن
کرنل صوفیہ قریشی، بھارتی فوج کی ایک بہادر خاتون افسر، جنھوں نے ’’آپریشن سندور‘‘ کی شاندار کامیابی میں بطور ترجمان کلیدی کردار ادا کیا ہے، آج ایک غیر ضروری سیاسی تنازع کا شکار ہیں۔ مدھیہ پردیش کے بی جے پی وزیر وجے شاہ کے ان کے خلاف قابل اعتراض بیان نے نہ صرف سیاسی حلقوں میں ہلچل مچائی ہے بلکہ عام شہریوں میں بھی غم و غصے کی لہر دوڑا دی ہے۔ وجے شاہ نے کرنل صوفیہ کو ’’دہشت گردوں کی بہن‘‘ کہہ کر نہ صرف ان کی ذاتی توہین کی بلکہ بھارتی فوج کے وقار اور ایک بہادر خاتون کے پیشہ ورانہ کردار پر بھی سوال اٹھایا ہے۔ اگرچہ وجے شاہ نے بعد میں معافی مانگ لی اور صوفیہ کو ’’اپنی بہن سے زیادہ قابل قدر‘‘ قرار دیا ہے، لیکن ان کےانتہائی غیر ذمہ دارانہ بیان نے بی جے پی کی ساکھ کوجو نقصان پہنچایا ہےوہ اپنی جگہ بر قرار ہے۔
کرنل صوفیہ قریشی کی پیشہ ورانہ خدمات اور قربانیاں کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ ’’آپریشن سندور‘‘ کے دوران انہوں نے فوج کی ترجمانی کرتے ہوئے قوم کو متحد رکھا اور اپنی بہادری سے سب کے دل جیت لیے۔ اس آپریشن کے بعد ان کی عوامی مقبولیت میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ اس تناظر میں، وجے شاہ کا غیر ذمہ دارانہ بیان، جو ایک آئینی عہدے پر فائز سیاستدان کی جانب سے آیا، نہ صرف شرمناک ہے بلکہ فوج کے وقار پر حملہ ہے۔ عوام کا یہ سوال بجا ہے کہ کیا ایک خاتون فوجی، جو اپنی مذہبی شناخت سے بالاتر ہو کر قوم کی خدمت کر رہی ہے، کو اس طرح کی توہین کا نشانہ بنانا جائز ہے؟
کانگریس نے اس بیان کی شدید مذمت کرتے ہوئے وجے شاہ کے استعفے کا مطالبہ کیا ہے، جو ایک سیاسی جماعت کا متوقع ردعمل ہے۔ لیکن اصل سوال یہ ہے کہ بی جے پی، جو ملک کی سب سے بڑی حکمراں جماعت ہے، اپنے وزیر کے ’’واہیات‘‘ بیان پر کارروائی کرنے میں کیوں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کر رہی ہے؟ بی جے پی کی خاموشی نے یہ تاثر دیا ہےکہ پارٹی اس معاملے کو نظرانداز کرنا چاہتی ہے، جس سے عوام کے ایک بڑے طبقے میں یہ سوچ پختہ ہوئی ہے کہ پارٹی کے کچھ رہنما مذہبی تعصبات سے متاثر ہیں۔ اگر بی جے پی اس معاملے پر واضح موقف یا تادیبی کارروائی سے گریز کرتی ہے، تو یہ الزام مزید مضبوط ہوگا کہ پارٹی کرنل صوفیہ کو ان کی مذہبی شناخت کی وجہ سے نشانہ بنا رہی ہے۔حالانکہ بی جے پی کے لیے یہ ایک بڑا موقع ہے کہ وہ ذمہ دارانہ رویہ اپنائے۔ وجے شاہ کے خلاف تادیبی کارروائی یا ان سے واضح معافی نہ صرف عوامی اعتماد بحال کر سکتی ہے، بلکہ یہ پیغام بھی دے گی کہ پارٹی غیر ذمہ دارانہ بیانات کی حمایت نہیں کرتی ہے۔ سیاسی جماعتوں کو اپنے رہنماؤں کے بیانات پر کنٹرول رکھنا چاہئے، کیونکہ ایسی غیر ذمہ دارانہ زبان سے نہ صرف ان کی ساکھ متاثر ہوتی ہے بلکہ پورا سیاسی نظام داؤ پر لگ جاتا ہے۔ ایک خاتون فوجی افسر کے خلاف ایسی زبان کا استعمال نہ صرف انفرادی توہین ہے بلکہ قومی اداروں کی عزت پر سوال اٹھاتا ہے۔
اس تنازع نے ایک بڑا سوال اٹھایا کہ سیاسی بیان بازی کس حد تک غیر ذمہ دارانہ ہو سکتی ہے۔ یہ کہنا کہ وجے شاہ کا بیان بی جے پی کی مکمل پالیسی کی عکاسی کرتا ہے، شاید جلدبازی ہو، لیکن ایسی زبان سے پارٹی کی ساکھ کو نقصان لازمی ہے۔ بی جے پی کو اس تنازع سے نمٹنے کے لیے فوری اور واضح موقف اپنانا چاہئے تاکہ عوام کا اعتماد بحال ہو۔اس تناظر میں، ہندوستانی معاشرے کی خوبصورتی ان افراد میں نظر آتی ہے، جو نفرت کے مقابلے میں امن اور ہم آہنگی کا پیغام دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر، وائس ایئر فورس کے جوان سرتاج، جن کے والد اخلاق کو نوئیڈا کے بسہاڑا گاؤں میں مشتعل ہجوم نے ہلاک کر دیا تھا، کا کہنا ہے کہ ’’چند لوگوں کی وجہ سے پورے معاشرے کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔‘‘ اسی طرح، پہلگام حملے میں شہید لیفٹیننٹ ونئے نرول کی اہلیہ ہمانشی نے کہا کہ وہ ’’مسلمانوں یا کشمیریوں کے خلاف نفرت نہیں چاہتیں، بلکہ امن اور انصاف کی خواہاں ہیں۔‘‘ سرتاج اور ہمانشی آج کے ’’نئے بھارت‘‘ میں ہم آہنگی اور باہمی خیرسگالی کے چہرے ہیں۔ ان کے یہ بیانات ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ قومی ہیروز کو مذہبی یا فرقہ وارانہ عینک سے دیکھنے کے بجائے ان کی خدمات کی قدر کی جانی چاہئے۔
بہر حال کرنل صوفیہ قریشی جیسے افراد ہمارے ملک کا فخر ہیں۔ وہ نہ صرف ایک بہادر فوجی ہیں بلکہ قوم کی خدمت میں اپنی زندگی وقف کر چکی ہیں۔ ان کی عزت و وقار کو برقرار رکھنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ بی جے پی کو اس تنازع سے نمٹنے کے لیے فوری اور واضح موقف اپنانا چاہئے تاکہ یہ پیغام جائے کہ قومی ہیروز کی توہین برداشت نہیں کی جائے گی۔ کرنل صوفیہ پر پوری قوم کو ناز ہے، ان کی توہین پورے ملک کی توہین ہے۔