!شمع جلتی رہے تو بہتر ہے

تاثیر 2 مئی ۲۰۲۵:- ایس -ایم- حسن

پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی ایک بار پھر عروج پر ہے، اور اس کی وجہ حال ہی میں انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کے علاقے پہلگام میں ہونے والا دہشت گرد حملہ ہے، جس میں 26 سیاح ہلاک ہوئے۔ اس حملے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان سفارتی اور عسکری تناؤ میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان کے وزیرِ اطلاعات عطاء اللہ تارڑ نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کے پاس مستند انٹیلی جنس معلومات ہیں کہ بھارت اگلے 24 سے 36 گھنٹوں میں پہلگام حملے کو جواز بنا کر پاکستان کے خلاف فوجی کارروائی کر سکتا ہے۔ اس دعوے کے ساتھ ہی پاکستان نے کٹھوعہ کے پرگوال علاقے میں اپنی سرحدی چوکیاں خالی کر دیںہیںساتھ ہی وہاں سے اپنا قومی پرچم بھی ہٹا دیا ہے۔ دوسری جانب،پی ایم نریندر مودی کی قیادت میں کابینہ کمیٹی برائے قومی سلامتی نے مسلسل میٹنگز کر کے سیکیورٹی انتظامات کا جائزہ لیکر فوج کو جوابی کارروائی کے لیے مکمل آپریشنل آزادی دے دی۔ اس کے ساتھ ہی نیشنل سیکوریٹی ایڈوائزری بورڈ میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کی گئیں اور را کے سابق سربراہ آلوک جوشی کو اس کا چیئرمین مقرر کیا گیا۔ ان تبدیلیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت قومی سلامتی کے معاملات میں کوئی کسر نہیں چھوڑنا چاہتا۔
پہلگام حملے کے بعد سے لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کا سلسلہ جاری ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق منگل کو پاکستان کی جانب سے جنگ بندی کی مبینہ خلاف ورزی پر بھارت نے فوری جوابی کارروائی کی تھی۔ دونوں ممالک کے ڈائریکٹر جنرل آف ملٹری آپریشنز کے درمیان ہاٹ لائن پر بات چیت بھی ہوئی، جس میں بھارت نے پاکستان کو بغیر اشتعال کے فائرنگ پر خبردار کیا۔ اگرچہ ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ بات چیت معمول کے مطابق ہر منگل کو ہوتی ہے، لیکن موجودہ حالات میں اس کی اہمیت غیر معمولی ہے۔ بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی معطلی، واہگہ واٹاری سرحد کی بندش، پاکستانی شہریوں کے ویزوں کی منسوخی اور سفارتی عملے کی تعداد میں کمی جیسے سخت اقدامات اس بات کا اشارہ ہیں کہ نئی دہلی اس حملے کو انتہائی سنجیدگی سے لے رہی ہے۔
پاکستان کا سرحدی چوکیاں خالی کرنے اور پرچم ہٹانے کا فیصلہ کئی سوالات اٹھاتا ہے۔ کیا یہ دفاعی حکمتِ عملی کا حصہ ہے یا عسکری کارروائی سے بچنے کی کوشش؟ یہ اقدام عالمی برادری کے لیے بھی ایک پیغام ہو سکتا ہے کہ پاکستان خود کو حملے کا شکار ظاہر کرنا چاہتا ہے۔ تاہم، اس سے یہ بھی عیاں ہوتا ہے کہ پاکستان بھارت کی ممکنہ کارروائی کو سنجیدگی سے لے رہا ہے۔ دوسری جانب، بھارت کی فوجی تیاریاں اور نیشنل سیکوریٹی ایڈوائزری بورڈ میں تجربہ کار فوجی اور انٹیلی جنس حکام کی شمولیت اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ مودی حکومت نہ صرف جوابی کارروائی پر غور کر رہی ہے بلکہ اسے درست اور موثر بنانے کے لیے ہر ممکن اقدام کر رہی ہے۔
بہر حال یہ صورتحال خطے میں امن کے لیے سنگین خطرہ ہے۔ ماضی میں 2001 کے پارلیمنٹ حملے اور 2008 کے ممبئی حملوں کے بعد دونوں ممالک جنگ کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں۔ موجودہ تناؤ بھی اسی طرح کے نتائج کا حامل ہو سکتا ہے اگر دونوں اطراف سے تحمل اور سفارتی کوششوں کو ترجیح نہ دی گئی۔ عالمی برادری، خاص طور پر امریکہ کو اس تنازعے میں ثالثی کا کردار ادا کرنا چاہئے، جیسا کہ ماضی میں کئی بار ہوا ہے۔ دونوں ممالک کے جوہری ہتھیاروں سے لیس ہونے کی وجہ سے کوئی بھی غلط فہمی یا غیر متوقع اقدام تباہ کن نتائج کا باعث بن سکتا ہے۔
پہلگام حملے کی شفاف تحقیقات ناگزیر ہیں۔ بھارت کی جانب سے فوری طور پر پاکستان پر الزامات اور پاکستان کی جانب سے اسے فالس فلیگ آپریشن قرار دینے سے تناؤ میں اضافہ ہوا ہے۔ دونوں ممالک کو جذباتی ردعمل کے بجائے حقائق کی بنیاد پر آگے بڑھنا چاہئے۔ اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ دونوں اطراف سفارتی چینلز کو فعال کیا جائے اور عالمی اداروں کی نگرانی میں حملے کی غیر جانبدار تحقیقات کرائی جائیں۔ خطے کے استحکام اور عوام کی فلاح کے لئے پاکستان اور بھارت کو تحمل کا مظاہرہ کرنا ہوگا، بصورت دیگر اس کشیدگی کے اثرات نہ صرف دونوں ممالک بلکہ پورے جنوبی ایشیا پر مرتب ہوں گے اور یہ کسی بھی طرح سے مناسب نہیں ہوگا۔جنگ مسئلے کا حل قطعی نہیں۔ اس سے مزید مسائل جنم لیتے ہیں۔ساحر ؔلدھیانوی کے لفظوں میں، ’’خون اپنا ہو یا پریا ہو، نسلِ آدم کا خون ہے آخر، جنگ مشرق میں ہو کہ مغرب میں،امنِ عالم کا خون ہے آخر،اس لئے اے شریف انسانو، جنگ ٹلتی رہے تو بہتر ہے،آپ اور ہم سبھی کے آنگن میں، شمع جلتی رہے تو بہتر ہے !