عدل و انصاف انسانی معاشرے کی بنیاد ہیں۔ یہ وہ اصول ہیں جو سماجی ہم آہنگی، مساوات اور انسانی وقار کو یقینی بناتے ہیں۔ انسانی تقاضے، جو بنیادی حقوق، آزادی اور عزت نفس سے جڑے ہیں، عدل و انصاف کے بغیر پورے نہیں ہو سکتے۔ معاشرے میں جب انصاف کا نظام مضبوط ہوتا ہے، تو افراد کو ان کے حقوق ملنے کی ضمانت ہوتی ہے اور جب یہ نظام کمزور پڑتا ہے، تو معاشرہ عدم استحکام، بدامنی اور ناانصافی کا شکار ہو جاتا ہے۔ چنانچہ عدل و انصاف کے تصور، اس کی اہمیت، انسانی تقاضوں سے اس کے تعلق اور موجودہ عالمی و ملکی تناظر میں اس کی صورتحال کو سمجھنا نہایت ضروری ہے۔
عدل و انصاف کا تصور بھارتی تہذیب میں گہری جڑیں رکھتا ہے۔ ویدک فلسفوں سے لے کر بدھ مت اور جدید آئینی اصولوں تک، انصاف کو سماجی نظام کی بنیاد سمجھا گیا ہے۔ بھارتی آئین، جو 1950ء میں نافذ ہوا، عدل، آزادی، مساوات، اور اخوت کو اپنے بنیادی اصول قرار دیتا ہے۔ آئین کا آرٹیکل 14 قانون کے سامنے سب کی برابری کی ضمانت دیتا ہے، جبکہ آرٹیکل 21 زندگی اور آزادی کے حق کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔ اس کے باوجود، بھارت کے سماجی و سیاسی ڈھانچے میں موجود پیچیدگیاں ان اصولوں کے عملی نفاذ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔جبکہ اسلام میں عدل کو اللہ کی صفت اور انسانی ذمہ داری کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے: ’’ اللہ عدل اور احسان کا حکم دیتا ہے‘‘(النحل: 90)۔پھر قرآن کریم میں دوسری جگہ یہ حکم ہے: ’’انصاف پر قائم رہو، چاہے وہ تمہارے خلاف ہی کیوں نہ ہو‘‘ (النساء: 135)۔ اسی طرح، جدید قانونی نظاموں میں انصاف کو قانون کی حکمرانی(رول آف لاء) کے طور پر دیکھا جاتا ہے، جہاں ہر فرد قانون کے سامنے برابر ہے۔اسی طرح انسانی تقاضوں میں بنیادی ضروریات جیسے خوراک، رہائش، تعلیم، صحت اور تحفظ کے علاوہ آزادی، مساوات، اور عزت نفس بھی شامل ہیں۔ یہ تقاضے عالمی انسانی حقوق کے اعلامیے (یونیورسل ڈکلریشن آف ہیومن رائٹس) میں بھی درج ہیں، جو 1948ء میں اقوام متحدہ نے منظور کیا تھا۔ ان تقاضوں کی تکمیل کے لیے عدل و انصاف کا نظام ناگزیر ہے۔ مثال کے طور پر، اگر عدالتی نظام غیر جانبدار نہ ہو، تو غریب اور کمزور طبقات اپنے حقوق سے محروم رہ جاتے ہیں۔ اسی طرح، اگر معاشی انصاف نہ ہو، تو دولت کی غیر منصفانہ تقسیم معاشرے میں عدم مساوات کو جنم دیتی ہے۔
سیاسی تناظر میں، بھارت کی جمہوریت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے، لیکن حالیہ برسوں میں سیاسی پولرائزیشن اور اداروں پر دباؤ نے عدل و انصاف کے نظام کو کمزور کیا ہے۔ عدلیہ، جو آئینی اقدار کی محافظ ہے، کو مقدمات کے بوجھ، سیاسی مداخلت، اور شفافیت کے مسائل کا سامنا ہے۔ کئی ہائی پروفائل مقدمات میں تاخیر نے عوام کا عدلیہ پر اعتماد متزلزل کیا ہے۔ اس کے علاوہ، قانون نافذ کرنے والے اداروں، جیسے پولیس، پر بدعنوانی اور جانبداری کے الزامات لگتے رہے ہیں، جو خاص طور پر اقلیتوں اور کمزور طبقات کےلئے انصاف تک رسائی کو مشکل بناتے ہیں۔سماجی طور پر بھی، بھارت میں ذات پات اور مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک بدستور ایک بڑا چیلنج ہے۔ دلت اور دیگر پسماندہ ذاتوں کے خلاف تشدد اور امتیازی رویوں کے واقعات اب بھی عام ہیں۔ مذہبی اقلیتوں، خاص طور پر مسلمانوں اور عیسائیوں، کو بھی بعض علاقوں میں تعصب کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ حالیہ برسوں میں، مذہبی انتہا پسندی اور فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات نے سماجی ہم آہنگی کو نقصان پہنچایا ہے۔ مثال کے طور پر، گئو کشی کے نام پر ہجومی تشدد (لنچنگ) کے واقعات نے قانون کی حکمرانی پر سوالیہ نشان کھڑے کئے ہیں۔معاشی انصاف بھی بھارت میں ایک اہم مسئلہ ہے۔ اگرچہ بھارت دنیا کی تیز ترین ترقی کرنے والی معیشتوں میں سے ایک ہے، لیکن دولت کی غیر منصفانہ تقسیم نے امیروں اور غریبوں کے درمیان خلیج کو بڑھایا ہے۔ دیہی علاقوں میں رہنے والے کروڑوں افراد کو بنیادی سہولیات جیسے صاف پانی، بجلی اور صحت کی خدمات تک رسائی نہیں ہے۔ تعلیم کے شعبے میں بھی نجی اور سرکاری اداروں کے معیار میں واضح فرق موجود ہے، جو طبقاتی تقسیم کو مزید گہرا کرتا ہے۔
ان چیلنجز کے باوجود، بھارت میں عدل و انصاف کے نظام کو مضبوط کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ سپریم کورٹ نے کئی تاریخی فیصلوں کے ذریعے سماجی انصاف کو فروغ دیا ہے۔ سول سوسائٹی اورسوشل میڈیا بھی انصاف کے لئے آوازیں اٹھاتے رہتے ہیں۔ تاہم، ان کوششوں کو مزید تقویت دینے کے لئے کئی اقدامات ضروری ہیں۔اور اس لئے ضروری ہیں کہ عدل و انصاف اور انسانی تقاضے ایک دوسرے سے لازم و ملزوم ہیں۔ بھارت جیسے متنوع ملک میں، جہاں سماجی و سیاسی چیلنجز پیچیدہ ہیں، انصاف کا نظام ہی وہ واحد راستہ ہے، جو مساوات، آزادی اور وقار کی ضمانت دے سکتا ہے۔ اگر بھارت کو ایک منصفانہ اور خوشحال معاشرہ بنانا ہے، تو عدل و انصاف کے اصولوں کو نہ صرف آئین میں، بلکہ عملی زندگی میں بھی جگہ دینی ہوگی اور ایمانداری سے اسے نافذ بھی کرنا ہوگا۔