تاثیر 31مئی ۲۰۲۵:- ایس -ایم- حسن
نوکری کے بدلے زمین دینے کے مبینہ اسکینڈل میں سی بی آئی کی تفتیش اور الزامات کا سامنا کر رہے آر جے ڈی سربراہ و سابق وزیراعلیٰ بہار، لالو پرساد یادو کو دہلی ہائی کورٹ سے ایک اور دھچکا لگا ہے۔عدالت نے کل لالو پرساد یادو کی یہ اپیل مسترد کر دی کہ سی بی آئی کی درج کردہ ایف آئی آر اور دائر شدہ تین چارج شیٹوں کو منسوخ کیا جائے۔ عدالت کا کہنا تھا کہ لالو یادو ٹرائل کورٹ میں اپنی بات رکھنے کے لئے آزاد ہیں، اور اس مرحلے پر اعلیٰ عدالت کی مداخلت کا کوئی جواز نہیں بنتا ہے۔مانا جا رہا ہے کہ یہ فیصلہ صرف قانونی اہمیت کا حامل نہیں بلکہ اس کے سیاسی مضمرات بھی غیرمعمولی ہیں، خصوصاً اس سال کے آخر میں ہونے والے بہار اسمبلی انتخابات کے تناظر میں۔ آر جے ڈی کی قیادت اب عملی طور پر لالو پرساد کے بیٹے، تیجسوی یادو کے ہاتھوں میں ہے، جو پچھلے چند برسوں میں ریاستی سیاست میں اپنی مضبوط جگہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تاہم، والد کے خلاف بڑھتے ہوئے قانونی دباؤ اور عدالتی عمل سے گزرنے والے مقدمات کا اثر پارٹی کی شبیہ پر پڑنا فطری ہے، خاص طور پر جب انتخابی ماحول میں ہر الزام سیاسی ہتھیار بن جاتا ہے۔
لالو پرساد یادو کا ماضی عوام کے ذہن میں ایک تجربہ کار لیکن متنازع رہنما کی شبیہ کے طور پر محفوظ ہے۔ ان پر پہلے بھی چارہ گھوٹالے جیسے سنگین مقدمات چل چکے ہیں، جن میں وہ سزا یافتہ بھی ہوئے ہیں۔ ایسے میں ایک اور بدعنوانی کے مقدمے میں ان کی موجودگی آر جے ڈی کے سیاسی مخالفین کو ایک مضبوط حملہ آور ہتھیار فراہم کر سکتی ہے، جسے وہ انتخابی مہم میں بھرپور استعمال کریں گے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور جنتا دل (یو) جیسے حریفوں کے لئے یہ موقع ہے کہ وہ آر جے ڈی کی قیادت پر سوال اٹھائیں اور عوامی رائے کو متاثر کرنے کی کوشش کریں۔اس کے برعکس، آر جے ڈی کی کوشش ہوگی کہ وہ اس عدالتی کارروائی کو سیاسی انتقام قرار دے کر اپنے ووٹ بینک کو متحرک کرے، خاص طور پر دیہی اور پسماندہ طبقات کو جو لالو یادو کو اب بھی ایک ’’جن نائک‘‘ کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ایسے بیانیے ماضی میں کامیاب بھی رہے ہیں، لیکن بدلتے سیاسی منظرنامے اور نوجوان ووٹرز کی سوچ کو دیکھتے ہوئے اس بار یہ حکمت عملی کس حد تک کامیاب ہوتی ہے، یہ کہنا قبل از وقت ہوگا۔
یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ عدالت نے سی بی آئی کی کارروائی کو قانونی طور پر درست مانتے ہوئے یہ واضح پیغام دیا ہے کہ الزامات کے مرحلے پر ہی ان کی نوعیت کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ عدالتوں کا یہ موقف قانونی عمل کو شفاف رکھنے اور تحقیقات کو سیاسی مداخلت سے محفوظ رکھنے کے لئے اہم قدم تصور کیا جا سکتا ہے۔ تاہم، اس فیصلے نے یہ بھی ظاہر کیا ہےکہ اگرچہ قانون سب کے لئے برابر ہے، لیکن سیاسی اثر و رسوخ رکھنے والوں کے خلاف مقدمات میں عدالتی سنجیدگی اور وقت کا تعین زیادہ باریکی سے دیکھا جاتا ہے۔
بہار کی سیاست پہلے سے ہی مخلوط حکومت، بدلتے اتحاد، اور غیر یقینی امکانات کے گرد گھومتی رہی ہے۔ ایسے میں لالو پرساد یادو کا قانونی معاملات میں اُلجھنا آر جے ڈی کے لئے داخلی سطح پر بھی اضطراب کا باعث بن سکتا ہے۔ قیادت کی مرکزیت، تیجسوی یادو کی سیاسی بصیرت اور ووٹر کے ساتھ جذباتی ربط سب کچھ امتحان کی گھڑی میں ہے۔خاص طور پر نوجوان ووٹروں کی ایک بڑی تعداد، جو روزگار، تعلیم اور ترقی کو اولین ترجیح دیتی ہے، وہ شخصی ساکھ اور قانونی صاف گوئی کو نظر انداز کرنے کو تیار نہیں دکھائی دے رہی ہے۔چنانچہ بہار کا انتخابی ماحول وقت کے ساتھ مزید شدت اختیار کرے گا۔ جس طرح عدالتوں کے فیصلے عوامی رائے سازی پر اثر انداز ہوتے ہیں، اسی طرح عوامی تاثر عدالت کے فیصلوں کے مفہوم کو بھی نئی شکل دیتا ہے۔
اگرچہ عدالت کا فیصلہ صرف قانونی دائرے میں آیا ہے، لیکن اس کے سیاسی اثرات سے انکار ممکن نہیں ہے۔لالو یادو کا معاملہ اس بات کی علامت بن سکتا ہے کہ کس طرح عدلیہ، تحقیقاتی ادارےاور سیاست ایک نازک توازن میں بندھے ہوئے ہیں، جہاں ایک قدم آگے یا پیچھے انتخابی نتائج تک پر اثر ڈال سکتا ہے۔بہر حال رواں سال کے آخر میں،بہار میں ہونے والے انتخابات اسی توازن کا امتحان ہوں گے۔لہٰذا، یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ عوام انصاف اور سیاست کے بیچ کی لکیر کوکتنی باریکی سے دیکھتے ہیں اور کس طرح کا فیصلہ سناتے ہیں۔ظاہر ہے بہار کی تقدیر عوام کے اسی فیصلے پر ہی منحصر ہوگی۔
*******