ہجومی تشدد: انسانیت کی تذلیل

تاثیر 26 مئی ۲۰۲۵:- ایس -ایم- حسن

25مئی، 2025 کو اتر پردیش کے علی گڑھ کے ہردوآگنج تھانہ علاقے میں ایک دل دہلا دینے والا واقعہ پیش آیا، جہاں گائے کے گوشت کی اسمگلنگ کے محض شبہ پر چار مسلم نوجوانوں(ارباز، عقیل، ندیم اور منا خان)کو ایک مشتعل ہجوم نے وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا۔ ہجوم نے نہ صرف ان افراد کو پیٹ پیٹ کر نیم مردہ کر دیا بلکہ ان کی گاڑی کو بھی نذر آتش کر دیا۔ اس واقعے نے نہ صرف مقامی سطح پر کشیدگی کو ہوا دی بلکہ ایک بار پھر بھارت میں ہجومی تشدد کے بڑھتے ہوئے رجحان اور اس کے سماجی و قانونی مضمرات کو اجاگر کیا۔ یہ واقعہ محض دس دن قبل بہار کے سارن ضلع میں ذاکر قریشی کے ہجومی تشدد میں ہلاک ہونے کے بعد ایک اور دردناک یاد دہانی ہے کہ بھارت میں قانون کی عملداری کو کس قدر چیلنجز کا سامنا ہے۔
یہ کوئی نیا رجحان نہیں ہے۔ 2015 میں، دہلی این سی آر کے تحت اتر پردیش کا ایک قصبہ دادری کے رہنے والے اخلاق احمد کے قتل سے لے کر اب تک، گائے کے تحفظ کے نام پر ہجومی تشدد کے واقعات میں مسلم نوجوانوں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری ہے۔ اخلاق کو گائے کا گوشت رکھنے کے الزام میں ہجوم نے بے رحمی سے قتل کر دیا تھا، اور اس واقعے نے پورے ملک میں ایک خوفناک بحث چھیڑ دی تھی۔ اس کے بعد سے، جھارکھنڈ کے رام گڑھ میں علیم الدین انصاری، تبریز انصاری ،اتر پردیش کے بلند شہر میں پولیس انسپکٹر سبودھ کمار، اور متعدد دیگر افراد اسی طرح کے ہجومی تشدد کا شکار ہوچکے ہیں۔ ان واقعات میں ایک مشترکہ عنصر نظر آتا ہے اور وہ ہے، گائے کے تحفظ کے نام پر منظم نفرت اور تشدد، جسے اکثر دائیں بازو کی تنظیموں جیسے کہ وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) اور بجرنگ دل سے منسلک افراد کی حمایت حاصل ہوتی ہے۔ علی گڑھ کے حالیہ واقعے میں بھی پولیس نے 12 نامزد اور 25 نامعلوم افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کی، جن کا تعلق مبینہ طور پر انہی تنظیموں سے بتایا جا رہا ہے۔
اس کے علاوہ، نفرت کی اس سیاست کا دائرہ صرف بالغ افراد تک محدود نہیں ہے۔ حالیہ برسوں میں، مدرسوں میں زیر تعلیم چھوٹے چھوٹے معصوم مسلم بچوں کو بھی اس وحشت کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ کئی واقعات میں، ان بچوں کو پکڑ کر ان سے زبردستی “جے شری رام” کا نعرہ لگوانے کی کوشش کی گئی اور نہ ماننے پر ان پر تشدد کیا گیا۔ یہ انتہائی شرمناک اور انسانیت سوز عمل ہے، جو معاشرے میں پھیلتی ہوئی عدم رواداری اور مذہبی منافرت کی گہرائی کو ظاہر کرتا ہے۔ اسی طرح، ٹرینوں میں سفر کرنے والے عمر رسیدہ مسلم افراد کے ساتھ ہونے والی زیادتیاں بھی اسی نفرت کی سیاست کا حصہ ہیں۔ ایسی کئی ویڈیوز منظر عام پر آئیں جن میں بزرگ مسلم مسافروں کو ’’جے شری رام‘‘ کا نعرہ لگانے پر مجبور کیا گیا یا ان پر تشدد کیا گیا۔ یہ واقعات نہ صرف اقلیتوں کے خلاف تعصب کو ظاہر کرتے ہیں بلکہ معاشرے میں بڑھتی ہوئی عدم رواداری کی عکاسی بھی کرتے ہیں۔ سماجی میڈیا پر پھیلنے والی افواہوں، جیسے کہ بچہ چوری یا گائے کے گوشت کی اسمگلنگ کے الزامات، نے ہجومی تشدد کو مزید ہوا دی ہے۔ علی گڑھ کے واقعے میں بھی سوشل میڈیا پوسٹس نے دعویٰ کیا ہےکہ متاثرین کے پاس اپنے کاروبار کے قانونی کاغذات موجود تھے، لیکن ہجوم نے بغیر تصدیق کے تشدد کا راستہ اختیار کیا۔
قانونی طور پر، ہجومی تشدد ایک سنگین جرم ہے، جیسا کہ بھارت کی سپریم کورٹ نے 2018 میں واضح کیا تھا کہ ہجومی تشدد کو معمول کا واقعہ بننے کی اجازت نہیں دی جا سکتی اور اس کےلئے ایک علیحدہ قانون بنانے کی سخت ضرورت ہے۔ تاہم، اس کے باوجود، ہجومی تشدد کے واقعات میں کمی نہیں آپا رہی ہے ۔ علی گڑھ کے معاملے میں پولیس نے فوری کارروائی کرتے ہوئے متاثرین کو ہسپتال منتقل کیا اور گوشت کے نمونوں کو لیبارٹری ٹیسٹ کے لیے بھیج دیا، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ کارروائی کافی ہے؟ ہجوم کو قانون ہاتھ میں لینے کا اختیار کس نے دیا؟ کیا پولیس اور انتظامیہ کی ذمہ داری صرف ایف آئی آر درج کرنے تک محدود ہے ؟ سوشل میڈیا پر اٹھنے والے سوالات، جیسے کہ ’’کیا وی ایچ پی اور بجرنگ دل کے کارکن پولیس یا جج ہیں؟‘‘، اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ عوام میں قانون کی عملداری پر اعتماد کم ہو رہا ہے اور یہ صورتحال ایک جمہوری ملک کے وقار کے خلاف ہے۔
سماجی طور پر، اس طرح کے واقعات معاشرے میں گہری تقسیم اور نفرت کی سیاست کو عیاں کرتے ہیں۔ گائے کے تحفظ کے نام پر ہونے والے تشدد کو اکثر سیاسی حمایت حاصل ہوتی ہے، جس سے ملزمان کو تحفظ ملتا ہے۔ مثال کے طور پر، جھارکھنڈ میں علیم الدین کے قتل کے ملزمان کو جب ضمانت پر رہائی ملی تو ایک مرکزی وزیر نے ان کا استقبال کیا، جو کہ ایک شرمناک عمل تھا۔ اس طرح کے واقعات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ہجومی تشدد صرف ایک سماجی مسئلہ نہیں بلکہ ایک سیاسی سازش کا حصہ بھی ہو سکتا ہے۔ علی گڑھ کے واقعے کو بھی کئی سوشل میڈیا پوسٹس نے’’رنگ داری‘‘ اور’’مسلم دشمنی‘‘ سے تعبیر کیا ہے، جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ معاشی اور سماجی دباؤ کے ذریعے اقلیتوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔چنانچہ حکومت سے اپیل ہے کہ’’سب کا ساتھ، سب کا وکاس اور سب کا وشواس‘‘ کے نعرے کو محض سیاسی بیانات تک محدود نہیں رکھا جائے بلکہ اسے زمینی حقیقت بنایا جائے۔ ہجومی تشدد کے ملزمان کے خلاف سخت سے سخت کارروائی کی جانی چاہئے، تاکہ قانون کی عملداری بحال ہو اور معاشرے میں امن و امان قائم ہو۔ ہر شہری، خواہ اس کا تعلق کسی بھی مذہب یا برادری سے ہو، کو تحفظ اور انصاف کا حق حاصل ہے۔ خاص طور پر معصوم بچوں اور بزرگ شہریوں کے خلاف تشدد ناقابل قبول ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ ہجومی تشدد کو روکنے کے لئے ایک مؤثر قانون نافذ کرے، پولیس اصلاحات کو یقینی بنائے، اور سوشل میڈیا پر نفرت پھیلانے والے مواد پر سخت کنٹرول کرے۔