تاثیر 23 مئی ۲۰۲۵:- ایس -ایم- حسن
غزہ کی سرزمین، جہاں خون سے رنگین چادریں اوڑھے گلیاں اور کوچے چیخ چیخ کر انسانیت کے ضمیر کو جھنجھوڑ رہے ہیں، ایک ایسی داستان رقم کر رہی ہے، جو تاریخ کے صفحات پر سیاہی سے نہیں، بلکہ معصوموں کے خون سے لکھی جا رہی ہے۔ دھماکوں کی گونج میں بچوں کی سسکیاں، ماؤں کی آہیں، اور ضعیفوں کی لرزتی دعائیں ایک ایسی تصویر پیش کررہی ہیں جو نہ صرف دل دہلا دینے والی ہے، بلکہ عالمی ضمیر کے لیے ایک کھلا چیلنج بھی ہے۔ اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری اس جنگ نے ان معصوموں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، جن کا نہ کوئی قصور ہے، نہ کوئی اختیار۔ فلسطین کے بچے، عورتیں، اور بوڑھے، جو اس جنگ کے سب سے بڑے شکار ہیں، دنیا سے سوال کر رہے ہیں کہ ان کا گناہ کیا ہے؟ کیا کسی بچے کی خطا صرف یہ ہے کہ وہ غزہ کی سرزمین پر پیدا ہوا؟ کیا کسی ماں کا جرم یہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کو بمباری سے بچانے کے لیے دربدر کی ٹھوکریں کھا رہی ہے؟ اور کیا کسی بوڑھے کی سزا یہ ہے کہ وہ اپنی زندگی کے آخری ایام سکون سے گزارنا چاہتا ہے؟ اگر نہیں، تو پھر دنیا کی خاموشی کیوں؟ اقوام متحدہ کی قراردادیں، انسانی حقوق کے دعوے دار ادارے اور نام نہاد عالمی امن کے ٹھیکیدار کہاں ہیں؟ کیوں ان معصوموں کی چیخیں کسی کے کانوں تک نہیں پہنچ رہیں؟
غزہ کے تباہ حال اسپتالوں کے احاطوں میں وہ ماں بیٹھی ہے، جو اپنے بچے کی لاش کو اس طرح تھپک رہی ہے، جیسے وہ اسے سلانے کی کوشش کر رہی ہو۔ شاید اسے یقین نہیں کہ وہ ننھا وجود اب کبھی مسکرائے گا نہیں۔ ایک اور ماں، جس کی گود میں دو معذور بچے ہیں، آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر پوچھ رہی ہے، ’’اے رب! میرے بچوں کا کیا قصور؟‘‘ مگر آسمان شاید شرمندگی سے خاموش ہے۔ وہ بچے، جو اسکول کی کتابوں سے خواب سجانے کی عمر میں تھے، اب ملبے تلے دب کر کفن میں لپٹ رہے ہیں۔ ان کے کھلونوں کی جگہ بارود نے لے لی ہے، اور ان کی مسکراہٹوں کو دھماکوں نے چھین لیا ہے۔ غزہ کی گلیوں میں خون کے دھبے اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ انسانیت اپنے زوال کے بدترین دور سے گزر رہی ہے۔
ضعیف مرد و خواتین، جنہوں نے اپنی پوری زندگی صبر، قربانی اور امید کی زبان بولی، آج ان کے جسم زخموں سے چور ہیں۔ وہ نسل جو بیت المقدس کی حرمت اور فلسطین کی محبت کو دل میں بسائے ہوئے تھی، آج سوالیہ نظروں سے دنیا کی طرف دیکھ رہی ہے۔ ان کی آنکھوں میں ایک ہی سوال ہے:’’کیا ہم انسان نہیں ہیں؟‘‘ یہ سوال نہ صرف فلسطین کے مظلوموں کا ہے، بلکہ ہر اس شخص کا ہے، جو انسانیت پر یقین رکھتا ہے۔ اسلامی تعلیمات واضح ہیں کہ ایک بے گناہ انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔ لیکن غزہ میں روزانہ درجنوں بے گناہ زندگی سے محروم ہو رہے ہیں، اور دنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔
عالمی سیاست کا ایوان، جہاں امن اور انصاف کے بلند بانگ دعوے کیے جاتے ہیں، وہاں فلسطین کے خون سے رنگین مناظر کوئی اثر نہیں چھوڑ رہے۔ مسلم ممالک کے درمیان سیاسی اختلافات، سفارتی مصلحتیں اور خود غرضی کی دیواریں اس قدر بلند ہو چکی ہیں کہ مظلوموں کی آواز ان تک نہیں پہنچ پا رہی ہے۔ امت مسلمہ کی یہ خاموشی ،عالمی بے حسی سے کہیں زیادہ تکلیف دہ ہے۔ اگر ہم اپنے ایمان، اپنی انسانیت اور اپنی اخلاقی ذمہ داری کو زندہ رکھنا چاہتے ہیں، تو ہمیں صرف احتجاجی نعروں یا سوشل میڈیا کی پوسٹوں سے آگے بڑھنا ہوگا۔یہ وقت محض مذمت یا افسوس کے اظہار کا نہیں، بلکہ عملی اقدامات کا ہے۔ متحدہ آواز، مستقل دباؤ اور عالمی سطح پر مظلوموں کے لئے آواز اٹھانا ہی اس ظلم کو روک سکتا ہے۔ فلسطین صرف ایک جغرافیائی خطہ نہیں، بلکہ انسانیت، انصاف اور ایمان کا امتحان ہے۔ یہ امتحان ہر اس شخص کے لئے ہے جو خود کو انسان کہتا ہے۔دھیان رہے ! آج اگر ہم خاموش رہے، تو کل تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔ یہ اداریہ ان معصوم بچوں، بے بس ماؤں اور ستم رسیدہ بزرگوں کے نام ہے، جو ہر روز اپنی زندگی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ یہ ان کی امید کی ایک کرن ہے، جو آسمان کی طرف دیکھ رہی ہے۔ آئیے ! ہم سب مل کر ان کے آنسوؤں کو پونچھنے اور ان کی آواز بننے کا عہد کریں۔ کیونکہ اگر ہم نے اب بھی آواز نہیں اٹھائی تو ہمارا ضمیر ہمیشہ کے لئے خاموش ہو جائے گا۔
***************