تاثیر 17 مئی ۲۰۲۵:- ایس -ایم- حسن
ملک کے کئی حصوں میں حالیہ دنوں میں مسلمانوں کے خلاف تشدد کے واقعات میں اضافہ تشویشناک ہے۔ ہجومی تشدد، سوشل میڈیا پر نفرت انگیز بیانات، اور کمزور افراد پر حملوں نے نہ صرف معاشرے میں خوف کا ماحول پیدا کیا ہے بلکہ سماجی ہم آہنگی کو بھی شدید نقصان پہنچایا ہے۔ خاص طور پر بہار کے ضلع سارن میں پیش آنے والا حالیہ واقعہ، جہاں 24 سالہ ذاکر قریشی کو ہجوم نے مبینہ طور پر پیٹ پیٹ کر ہلاک کر دیا اور ان کے بھائی نیہال کو شدید زخمی کر دیا، اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ کس طرح چھوٹے تنازعات کو فرقہ وارانہ رنگ دے کر سنگین نتائج تک پہنچایا جا رہا ہے۔ یہ واقعہ نہ صرف ایک خاندان کے لئے باعث صدمہ ہے بلکہ پورے معاشرے کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے کہ ہم کس سمت جا رہے ہیں۔
سارن کے چھپرا شہر میں پیش آنے والے اس واقعے کی تفصیلات دل دہلا دینے والی ہیں۔ذاکر قریشی، جو ایک باڈی بلڈر تھے، کو مبینہ طور پر چھوٹا تیلپا کے علاقے میں ایک ہجوم نے پکڑ کر تشدد کا نشانہ بنایا۔ ان کے والد ننھے قریشی کا دعویٰ ہے کہ اس حملے کی وجہ کوئی جانور چوری کا تنازع نہیں تھا، بلک ذاکر کے مسلمان ہونے اور ان کی جسمانی ساخت کی وجہ سے انہیں نشانہ بنایا گیا۔ذاکر کے بھائی نیہال، جو انہیں بچانے کی کوشش میں خود ہجوم کے ہتھے چڑھ گئے، اب ہسپتال میں زندگی اور موت کی کشمکش میں ہیں۔ نیہال کا بیان کہ وہ اپنے گھر واپس جانے سے ڈرتے ہیں کیونکہ انہیں مار دیا جائے گا، اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ تشدد نے نہ صرف جانی نقصان کیا بلکہ لوگوں کے دلوں میں خوف بھی بھر دیا ہے۔پولیس کے مطابق، اس واقعے میں چھ نامزد ملزمان ہیں، جن میں سے چار کو گرفتار کر لیا گیا ہے، جبکہ دیگر کی تلاش جاری ہے۔ پولیس سپرنٹنڈنٹ کمار آشیش نے بتایا کہ یہ واقعہ ایک گائے کے بچھڑے کی چوری کے تنازع سے شروع ہوا، جو بعد میں فرقہ وارانہ تشدد میں تبدیل ہو گیا۔ تاہم، مقامی لوگوں اورذاکر کے خاندان کا موقف ہے کہ یہ تنازع محض ایک بہانہ تھا۔ یہ بات قابل غور ہے کہ چھوٹا تیلپا اور کریم چک، جہاں یہ واقعہ پیش آیا، کے درمیان صرف ایک کلومیٹر کا فاصلہ ہے، اور دونوں علاقوں میں پہلے کبھی اس طرح کا فرقہ وارانہ تصادم نہیں دیکھا گیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حالیہ دنوں میں مخصوص عناصر کی جانب سے فرقہ وارانہ ماحول کو بھڑکانے کی دانستہ کوششیں کی جا رہی ہیں۔
یہ صرف بہار کا معاملہ نہیں ہے۔ ملک کے دیگر حصوں میں بھی اسی طرح کے واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر نفرت انگیز مواد کی بھرمار ہے، جہاں اقلیتی برادری کو نشانہ بنانے کے لئے جھوٹی افواہوں اور اشتعال انگیز پیغامات کا سہارا لیا جا رہا ہے۔ ٹرینوں میں بزرگ مسلمانوں کے ساتھ بدسلوکی، چھوٹے بچوں پر حملےاور مساجد کے سامنے اشتعال انگیز نعرے بازی کے واقعات عام ہو چکے ہیں۔ ان سب کا نتیجہ یہ ہے کہ ملک کی سب سے بڑی اقلیتی برادری عدم تحفظ کے گہرے احساس سے دوچار ہے۔اس صورتحال میں بہار کی حکومت کا کردار قابل ستائش ہے، جو اس طرح کے واقعات پر سخت کارروائی کر رہی ہے۔ سارن واقعے کے بعد پولیس نے فوری طور پر خصوصی تحقیقاتی ٹیم (ایس آئی ٹی) تشکیل دی ہے اور ملزمان کی گرفتاری کے لئے اقدامات کیے ہیں۔ تاہم، صرف انتظامی اقدامات کافی نہیں ہیں۔ معاشرے کے تمام طبقات کو مل کر اس زہر کو ختم کرنے کی ضرورت ہے، جو ہماری سماجی ہم آہنگی کو تباہ کر رہا ہے۔ سیاسی قائدین، مذہبی رہنماؤں، اور سول سوسائٹی کو آگے بڑھ کر نفرت کے اس ماحول کو ختم کرنے کے لئے مشترکہ کوششیں کرنی چاہئیں۔کیوں کہ ہمارے ملک کی خوبصورتی اس کی تنوع میں ہے۔ مختلف مذاہب، ثقافتوں اور زبانوں کا یہ امتزاج ہماری طاقت ہے۔ ماضی میں ہم نے دیکھا ہے کہ کس طرح ہندو، مسلم، سکھ اور عیسائی مل کر مشکل حالات سے نمٹتےتھے۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ایک بار پھر اسی جذبے کو زندہ کریں۔ سوشل میڈیا پر پھیلائی جانے والی نفرت کو روکنے کے لیے سخت قوانین کے ساتھ ساتھ عوامی شعور بیدار کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ اسکولوں اور کالجوں میں بچوں کو باہمی احترام اور رواداری کی تعلیم دی جانی چاہیے۔
سارن کا واقعہ ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ اگر ہم نے بروقت قدم نہ اٹھائے تو چھوٹے تنازعات بڑے سانحات میں تبدیل ہو سکتے ہیں۔ذاکر قریشی کی موت صرف ایک خاندان کا نقصان نہیں، بلکہ ہمارے سماجی ڈھانچے پر ایک دھبہ ہے۔ ہمیں اسے مٹانے کے لئے مل کر کام کرنا ہوگا۔ آئیے، ہم سب عہد کریں کہ نفرت اور تشدد کی اس آگ کو بجھائیں گے اور ایک ایسا معاشرہ بنائیں گے جہاں ہر فرد، چاہے وہ کسی بھی مذہب سے ہو، بغیر خوف کے اپنی زندگی گزار سکے۔ یہ ہماری مشترکہ ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے ملک کے امن اور بھائی چارے کی روایت کو بحال کریں۔