ہماری عدلیہ : کل سے ہوگا ایک نئے دور کا آغاز

 

بھارت کی عدلیہ ایک نئے دور کے آغاز کے لئے تیار ہے، کیونکہ جسٹس بی آر گوئی52 ویں چیف جسٹس آف انڈیا کے طور پر اپنا عہدہ کل بروز بدھ، یعنی 14 مئی کو سنبھالنے جا رہے ہیں۔وہ 23 نومبر، 2025 تک اس عہدے پر بنے رہیں گے۔ ان کی شخصیت، ان کے طریقۂ کاراور ان سے وابستہ عوامی توقعات نہ صرف عدلیہ بلکہ پورے ملک کے لئے ایک نئی روشنی کی علامت ہیں۔ جسٹس گوئی ایک ایسے جج ہیں، جو نہ صرف قانون کی پاسداری کرتے ہیں بلکہ اسے عوام کے لئے قابل رسائی اور انسانی بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کی سادگی، زمین سے جڑے رہنے کی فطرت اور آئین کی بالادستی پر غیر متزلزل یقین انہیں ایک منفرد مقام دیتا ہے۔ 140 کروڑ بھارتیوں کی نظریں اب ان پر مرکوز ہیں، جو ایک ایسی عدلیہ کی قیادت کریں گے ،جو انصاف کے ساتھ ساتھ اتحاد، شفافیت اور عوامی اعتماد کی علامت بن سکے۔
جسٹس گوئی کی شخصیت میں ایک ایسی سادگی اور ایمانداری جھلکتی ہے، جو انہیں عوام کے قریب لاتی ہے۔ ان کا یہ بیان کہ وہ ریٹائرمنٹ کے بعد کوئی عہدہ قبول نہیں کریں گے، ان کی غیر جانبداری اور عدلیہ کی آزادی کے تئیں عزم کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ فیصلہ نہ صرف ان کی ذاتی سالمیت کو ظاہر کرتا ہے بلکہ عدلیہ کے وقار کو بھی بلند کرتا ہے۔ ان کا یہ ماننا کہ چیف جسٹس کے عہدے کے بعد کسی اور ذمہ داری کو قبول نہیں کرنا چاہیے، ایک ایسی مثال قائم کرتا ہے ،جو آنے والے ججوں کے لیے مشعل راہ بن سکتی ہے۔ یہ عزم اس بات کی بھی گواہی دیتا ہے کہ وہ اپنے عہدے کو صرف ایک ذمہ داری ہی نہیں، بلکہ ایک مقدس امانت سمجھتے ہیں۔
جسٹس گوئی کا طریقۂ کار ان کے عوام سے جڑے رہنے کے فلسفے سے عیاں ہے۔ ان کا یہ کہنا کہ ججوں کو ’عاج کے مینار ‘ میں بیٹھ کر فیصلے نہیں کرنے چاہئیں، بلکہ عوام سے رابطہ رکھنا چاہئے، ایک نئے عدالتی نقطہ نظر کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ ان کی منی پور کے دورے کا ذکر، جہاں ایک بزرگ خاتون نے انہیں اپنے گھر کا فرد کہا، ان کے انسانی رابطے کی گہرائی کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ واقعہ نہ صرف ان کی عاجزی کو عیاں کرتا ہے بلکہ اس بات کی بھی گواہی دیتا ہے کہ وہ عدلیہ کو عوام کے لئے ایک قابل اعتماد ادارہ بنانے کے خواہشمند ہیں۔ ان کا یہ یقین کہ جب ملک بحران میں ہو تو سپریم کورٹ اس سے الگ نہیں رہ سکتی، ان کی سماجی ذمہ داری کے احساس کو واضح کرتا ہے۔ پہلگام دہشت گرد حملے کے بعد فوری طور پر فل کورٹ میٹنگ بلانا ان کے فعال اور حساس رویے کی مثال ہے۔
جسٹس گوئی کا آئین کی بالادستی پر زور ان کے عدالتی فلسفے کا بنیادی ستون ہے۔ ان کا یہ بیان کہ ’حقیقی بالادستی آئین کی ہے‘ اس بات کی یاد دہانی کراتا ہے کہ بھارت کی گنگا جمنی تہذیب اور جمہوری اقدار کی حفاظت کا سب سے بڑا ذریعہ آئین ہی ہے۔ ان کا یہ نقطہ نظر ایک ایسی عدلیہ کی طرف اشارہ کرتا ہے، جو نہ صرف قانون کی تشریح کرے گی بلکہ اسے ملک کی کثیر الثقافتی شناخت کے تحفظ کے لئے بھی استعمال کرے گی۔ ان کا بطور پہلے بودھ چیف جسٹس عہدہ سنبھالنا، وہ بھی بدھ پورنیما کے فوراً بعد، ایک علامتی اتفاق ہے جو ان کی شمولیت پسند سوچ کو مزید اجاگر کرتا ہے۔ یہ لمحہ نہ صرف ان کے لئے فخر کا باعث ہے بلکہ اس ملک کے تنوع کی خوبصورتی کو بھی نمایاں کرتا ہے۔
140کروڑ بھارتیوں کی توقعات جسٹس گوئی سے بہت زیادہ ہیں۔ عوام ایک ایسی عدلیہ کی امید رکھتے ہیں ،جو شفاف، جوابدہ اور سب کے لیے قابل رسائی ہو۔ خواتین، اقلیتوں، اور پسماندہ طبقات کے حقوق کے تحفظ سے لے کر ماحولیاتی مسائل اور سماجی انصاف تک، عوام کو امید ہے کہ جسٹس گوئی کی قیادت میں عدلیہ ان سبھی شعبوں میں ایک متوازن اور منصفانہ کردار ادا کرے گی۔ ان کا عوام سے جڑے رہنے کا عزم اور آئین کی پاسداری کا وعدہ اس امید کو تقویت دیتا ہے کہ وہ عدلیہ کو ایک ایسی سمت میں لے جائیں گے جو نہ صرف انصاف کی فراہمی کو یقینی بنائے بلکہ اسے عوام کے اعتماد کا محور بھی بنائے۔ ان کی قیادت میں عدلیہ سے یہ توقع ہے کہ وہ قانون کی حکمرانی کو مضبوط کرے گی اور سماجی ہم آہنگی کو فروغ دے گی۔ جسٹس گوئی کی سادگی، ان کا زمین سے جڑا رویہ اور ان کا آئین سے وابستگی بھارت کے عوام کے لیے ایک نئی صبح کا وعدہ ہے۔ آئیے، ہم سب مل کر اس نئے دور کا خیرمقدم کریں، جہاں’’ انصاف‘‘ صرف ایک لفظ نہیں، بلکہ ہر بھارتی کے دل کی آواز ہوگا۔