تاثیر 9 مئی ۲۰۲۵:- ایس -ایم- حسن
بھارت اور پاکستان کے درمیان حالیہ کشیدگی نے خطے کو ایک خطرناک موڑ پر لاکھڑا کیا ہے، جہاں جنگ کے سائے گہرے ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ پہلگام میں پچھلے ماہ معصوم سیاحوں پر ہوئےبزدلانہ حملے کے بعد، جسے بھارت نے پاکستان سے جوڑتے ہوئے فوری الزامات عائد کیے تھے، دونوں ممالک کے تعلقات بدترین سطح پر پہنچ چکے ہیں۔ بھارت کی جانب سے سرحد بند کرنے، سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے، پاکستانی سفارت کاروں کو نکالنے اور فضائی حدود بند کرنے جیسے اقدامات نے صورتحال کو مزید پیچیدہ بنادیا ہے۔ پاکستان نے بھی جوابی اقدامات کرتے ہوئے بھارت کے ساتھ 1972 کے امن معاہدے کو معطل کردیاہے اور کرتارپور راہداری مذاکرات روک دیے ہیں۔ عسکری سطح پر دونوں ممالک کی افواج لائن آف کنٹرول پر آمنے سامنے ہیں، جبکہ پاکستانی فضائیہ نے مبینہ طور پر پانچ بھارتی طیاروں اور متعدد ڈرونز کو مار گرانے کا دعویٰ کیا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے فوجی تصادم سے گریز کی اپیل کی ہے، لیکن دونوں ممالک کے سخت گیر رویوں نے سفارتی حل کی امیدوں کو دھندلا دیا ہے۔
اِدھر دونوں طرف کے عوام میں خوف اور بے یقینی بڑھ رہی ہے۔ بھارت میں، جہاں حکومت نے 7 مئی 2025 کو ملک گیر شہری دفاعی مشق کی تھی، اس کے بعد سے ہی لوگ ممکنہ فضائی حملوںسے پریشان ہیں۔ پاکستانی عوام، جو پہلے ہی معاشی بحران سے دوچار ہیں، زرعی برآمدات پر پڑنے والے اثرات اور پانی کی ممکنہ قلت سے خوفزدہ ہیں، کیونکہ بھارت نے سندھ طاس معاہدے کی معطلی کے ساتھ پاکستان کے پانی کے حصے کو روکنے کا منصوبہ شروع کیا ہے۔ دونوں ممالک کے میڈیا جنگ کے جنون کو ہوا دے رہے ہیں، جس سے نفرت اور بداعتمادی کا ماحول مزید گہرا ہو رہا ہے۔ پاکستانی وزیر دفاع خواجہ آصف کے بیان کہ ’’ایٹمی ہتھیار استعمال کیے جا سکتے ہیں‘‘ نے خطے میں تباہی کے امکانات کو مزید واضح کردیا ہے۔
بھارتی حکومت جنگ کے حالات سے نمٹنے کے لیے تیاریوں میں مصروف ہے۔پی ایم نریندر مودی نے سپلائی کے چین کو برقرار رکھنے پر زور دیا ہے، کیونکہ کسی بھی تنازعے میں خوراک، ایندھن اور ضروری اشیا کی ترسیل متاثر ہو سکتی ہے۔ بھارت عالمی سطح پر اپنا بیانیہ مضبوط کرنے کی کوشش میں ہے۔اس کا دعویٰ ہے کہ اس نے 80 ممالک سے حمایت حاصل کرلی ہے۔ اس کے برعکس، پاکستان کی معاشی کمزوری اسے سفارتی تنہائی کا شکار کر سکتی ہے، حالانکہ چین جیسے اتحادی اسے بیانیہ بنانے میں مدد دے رہے ہیں۔ بھارت نے معاشی استحکام کے لیے برطانیہ کے ساتھ آزادانہ تجارت کے معاہدے کو حتمی شکل دی اور امریکی کمپنی اسٹارلنک کو کاروبار کی اجازت دی ہے، تاکہ تنازعے کے اثرات کو کم کیا جا سکے۔
دونوں ممالک کے عوام جنگ کے تباہ کن نتائج سے بخوبی آگاہ ہیں۔ ماضی میں 1947، 1965، 1971 اور 1999 کی جنگوں نے لاکھوں جانیں لیں اور معاشی نقصانات پہنچائے۔ ایٹمی طاقتوں کے درمیان کسی بھی تصادم کا نتیجہ ناقابل تصور ہوگا۔ پاکستانی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بھارت کی موجودہ پالیسی ’’ہندوتووادی‘‘ ایجنڈے سے متاثر ہے، جو انتخابات میں سیاسی فائدے کے لئے پاکستان مخالف جذبات کو ہوا دیتی ہے۔ دوسری جانب، بھارت کا الزام ہے کہ پاکستان دہشت گردی کی حمایت کرتا ہے، حالانکہ پاکستان خود دہشت گردی سے متاثر ہے اور اسے فروغ دینا اس کے مفاد میں نہیں۔
ایسے میں دونوں ممالک کے عوام کو ابھی امن کی ضرورت ہے، مگر امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ باہمی بداعتمادی اور گفت و شنید کا فقدان ہے۔ ماضی میں لاہور اعلامیہ اور شملہ معاہدے جیسے اقدامات نے کشیدگی کم کی تھی، لیکن حالیہ ڈیڈلاک نے مذاکرات کے امکانات کو معدوم کردیا۔ عالمی برادری، بشمول امریکا، سعودی عرب اور چین، ثالثی کی کوششیں کر رہی ہے، لیکن دونوں ممالک کے قوم پرستانہ بیانیے ان کوششوں کو ناکام بنا رہے ہیں۔دونوں طرف کے غیر ذمہ دار میڈیا ایک ہفتہ پہلے سے جنگ کا ماحول کچھ اس طرح بنائےہوئے ہیں کہ دونوں طرف کے عوام کی بات کو سننے اور ان کے خدشات کوکوئی سمجھنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ جنگ نہ تو معاشی طور پر قابل عمل ہے اور نہ ہی خطے کے استحکام کے لیے سودمند۔ دونوں ممالک کو الزام تراشی کے بجائے مشترکہ مفادات، جیسے دہشت گردی کے خلاف تعاون اور معاشی بحالی کے تدارک پر توجہ دینی چاہئے۔ چنانچہ باشعور لوگوں کا ماننا ہے کہ اگر فوری طور پر سفارتی چینلز بحال نہ ہوئے، تو یہ کشیدگی خطے کو کسی بھی وقت تباہی کی طرف دھکیل سکتی ہے، جس کا خمیازہ دونوں ممالک کے عوام کو بھگتنا پڑے گا۔چنانچہ منور رانا کے لفظوں میں ، ’’جنگ کیا مسئلے کا حل دے گی،جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے۔‘‘
***************