تاثیر 11 جون ۲۰۲۵:- ایس -ایم- حسن
نریندر مودی بھارت کی سیاست میں ایک ایسی شخصیت کے طور پر ابھرے ہیں، جنہوں نے اپنے گیارہ سالہ دورِ وزارت عظمیٰ 2014-2025) ) میں ملکی و عالمی سطح پر گہری چھاپ چھوڑی ہے۔ ان کا سب سے نمایاں فیصلہ روایتی پریس کانفرنسز سے گریز رہا ہے، جو بھارتی سیاست میں ایک غیر معمولی رجحان ہے۔ اس حکمت عملی نے انہیں اپنے بیانیے پر کنٹرول اور عوام سے براہ راست رابطے کی راہ دکھائی ہے، جس سے ان کے طرزِ حکمرانی کو منفرد شناخت ملی ہے۔ اس فیصلے نے میڈیا، اپوزیشن اور عوام کے درمیان ایک طویل بحث کو جنم دیا ہے، لیکن اس نے مودی کی قیادت کو ایک نئی جہت بھی عطا کی ہے۔
2014 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد مودی نے روایتی میڈیا کے بجائے جدید ذرائع کو ترجیح دی۔ ان کا ریڈیو پروگرام ’’من کی بات‘‘ کروڑوں بھارتیوں تک ان کی پالیسیوں اور قومی مسائل کو پہنچانے کا مؤثر ذریعہ بنا ہے۔ یہ پروگرام ہندی سمیت متعدد علاقائی زبانوں میں نشر ہوتا ہے اور ریڈیو، ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ پر وسیع رسائی رکھتا ہے۔ اسی طرح، ایکس، فیس بک اور یوٹیوب جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز نے انہیں بغیر کسی فلٹر کے عوام سے جوڑا ہے۔ ایکس پر ان کے کروڑوں فالوورز ان کی ڈیجیٹل موجودگی کی طاقت کو ظاہر کرتے ہیں۔ خاص طور پر کووڈ-19 کے بحران میں ان کے خطابات، جیسے’’تھالی بجانے‘‘یا’’دیا جلانے‘‘ کی اپیل، نے عوام کو جذباتی طور پر متحد کیا۔ اگرچہ ان اقدامات پر تنقید یں بھی ہوئیں، لیکن انہوں نے عوام کے ایک بڑے حصے کو متاثر کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
مودی کے پریس کانفرنسز سے گریز کی جڑیں ان کے گجرات کے وزیر اعلیٰ کے دور سے ملتی ہیں، جہاں 2002 کے فسادات کے بعد میڈیا کی تنقید نے انہیں محتاط رویہ اپنانے پر مجبور کیا۔ اس تجربے نے ان کے میڈیا سے تعلقات کو متاثر کیااور جب وہ وزیر اعظم بنے تو انہوں نے اسی محتاط رویے کو جاری رکھا۔ پریس کانفرنسز کے بجائے انہوں نے کنٹرولڈ بیانیہ پیش کیا، جس سے وہ اپنی شرائط پر بات کر سکتے تھے۔ اس سے ان کی عوامی تصویر ایک مضبوط، فیصلہ کن اور عوام دوست لیڈر کے طور پر ابھری۔ مثال کے طور پر، ان کی پالیسیاں جیسے ’’میک ان انڈیا‘‘۔ ’’ڈیجیٹل انڈیا‘‘اور’’آتم نربھر بھارت‘‘ نے بھارت کو عالمی سطح پر ایک مضبوط مقام دیا۔ ان کی سوشل میڈیا حکمت عملی نے ان کامیابیوں کو اجاگر کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا، خاص طور پر نوجوان نسل کو متاثر کرتے ہوئے جو انٹرنیٹ پر زیادہ فعال ہے۔تاہم، اس فیصلے کے کچھ چیلنجز بھی ہیں۔ جمہوریت میں میڈیا کو چوتھا ستون کہا جاتا ہے، جو حکومت سے سوالات پوچھ کر اسے جوابدہ رکھتا ہے۔ مودی کے پریس کانفرنسز سے گریز کو اپوزیشن نے شفافیت کی کمی سے تعبیر کیا، خاص طور پر نوٹ بندی، جی ایس ٹی، یا آرٹیکل 370 جیسے بڑے فیصلوں کے تناظر میں۔ صحافیوں کو کھلے فورم پر سوالات پوچھنے کا موقع نہ ملنا ایک خلا کو نمایاں کرتا ہے۔ اس سے کچھ حلقوں میں یہ تاثر پیدا ہوا کہ حکومت مشکل سوالات سے بچنے کی کوشش کر رہی ہے۔ تاہم، مودی نے اپنی تقریروں اور سوشل میڈیا کے ذریعے حکومت کے موقف کو واضح کیا، جس سے عوام تک ان کا پیغام براہ راست پہنچا۔
مودی کی حکمت عملی کے فوائد کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے اپنے بیانیے پر مکمل کنٹرول حاصل کیا، جو روایتی پریس کانفرنسز میں ممکن نہ ہوتا۔ ان کی قوم پرستانہ اور جذباتی تقریروں نے انہیں عوام کے ایک بڑے طبقے میں مقبول بنایا۔ انہوں نے ثابت کیا کہ ایک لیڈر پریس کانفرنسز کے بغیر بھی عوام سے موثر رابطہ کر سکتا ہے۔ تاہم، یہ سوال باقی ہے کہ کیا یہ رابطہ دو طرفہ ہے؟ پریس کانفرنسز عوام کے خدشات کو رہنماؤں تک پہنچانے کا اہم ذریعہ ہیں اور اس فورم کی عدم موجودگی سے کچھ ناقدین کو یہ شکایت ہے کہ عوام کے مسائل حکومتی ترجیحات سے کٹ سکتے ہیں۔عالمی تناظر میں، مودی کا یہ رویہ منفرد نہیںہے۔ کئی عالمی رہنماؤں نے بھی سوشل میڈیا کو روایتی میڈیا پر ترجیح دی ہے۔ لیکن بھارت جیسے جمہوری ملک میں، جہاں میڈیا کی طویل روایت ہے، مودی کے اس فیصلے پر لوگوں کی نظر یں لگی رہتی ہیں۔حالانکہ مودی کے حامی اسے عوام سے براہ راست رابطے کی نئی راہ قرار دیتے ہیں، جبکہ ناقدین اسے جمہوری اداروں کے لیے ایک چیلنج سمجھتے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ مودی کے 11 سالہ دورِ اقتدار نے بھارت کو معاشی، سفارتی اور سماجی طور پر تبدیل کیا ہے۔ ان کی پالیسیوں نے ملک کو عالمی سطح پر مضبوط مقام دیا ہے۔ ان کے پریس کانفرنسز سے گریز نے ان کی قیادت کو منفرد شکل دی ہے۔ یہ فیصلہ ان کی سیاسی حکمت عملی کا اہم حصہ رہا ہے، جس نے انہیں اپنے بیانیے کو کنٹرول کرنے میں مدد دی مگر دوسری جانب اس نے جوابدہی پر سوالات بھی اٹھائے۔ بلا شبہہ وزیر اعظم نریندر مودی پریس کانفرنسز کے بغیر بھی اپنی حکومت کو کامیابی کے ساتھ چلاتے رہے ہیں۔تاہم پریس کانفرنسز کے بغیر ان قیادت میں جو خلاپیدا ہوا ہے، وہ بھارت کی جمہوریت کے مستقبل کے حوالے سے ہمیشہ موضوع بحث بنا رہے گا۔
***********************