بنگلہ دیش: سیاسی عدم استحکام کا خطرہ

تاثیر 10 جون ۲۰۲۵:- ایس -ایم- حسن

بنگلہ دیش کی سیاسی صورتحال ایک نازک موڑ پر ہے۔ عبوری حکومت کے سربراہ پروفیسر محمد یونس نے اپریل، 2026 میں عام انتخابات کا اعلان کیا ہے، جنھیں وہ تاریخ کے سب سے شفاف، منصفانہ اور جامع انتخابات قرار دیتے ہیں۔ تاہم، اس اعلان نے سیاسی تنازعات کو ہوا دیدی ہے۔ بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) اور دیگر جماعتیں اس فیصلے پر مایوسی کا اظہار کر رہی ہیں، جبکہ جماعت اسلامی کے امیر شفیق الرحمٰن نے انتخابات میں دھاندلی کے خدشات ظاہر کیے ہیں۔ عبوری حکومت کے لئے سب سے بڑا چیلنج سیاسی جماعتوں کے درمیان اتفاق رائے پیدا کرنا اور ایک غیر جانبدار انتخابی عمل کو یقینی بنانا ہے۔
اگست، 2024 میں شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد، طلبہ کی قیادت میں احتجاج نے سیاسی منظرنامے کو بدل دیا۔ اس کے بعد قائم ہونے والی عبوری حکومت پر پروفیسر یونس کی سربراہی میں اصلاحات، انصاف اور انتخابات کے مینڈیٹ کو پورا کرنے کی ذمہ داری ہے۔ انھوںں نے جولائی کے چارٹر کے تحت اصلاحاتی پروگراموں کو حتمی شکل دینے کا وعدہ کیا ہے، لیکن سیاسی تقسیم اور عدم اعتماد اس راہ میں بڑی رکاوٹیں ہیں۔ بی این پی نے حکومت کی غیر جانبداری پر سوال اٹھاتے ہوئے دو مشیروں کے استعفوں کا مطالبہ کیا ہے، جبکہ نیشنل سٹیزن پارٹی (این سی پی) نے انتظامیہ پر بی این پی کے زیر اثر ہونے کا الزام لگایا ہے۔ قومی اتفاق رائے کمیشن کے وائس چیئرمین پروفیسر علی ریاض کا کہنا ہے کہ اگر سیاسی جماعتیں تعاون کریں تو اگلے ماہ تک جولائی کے چارٹر سمیت اصلاحات کو حتمی شکل دینا ممکن ہوگا۔ لیکن سیاسی اختلافات کی گہری خلیج اس امید کو دُھندلا رہی ہے۔
عبوری حکومت کے لئے تمام سیاسی جماعتوں کو متحد کرنا اور اعتماد کی فضا قائم کرنا ایک بڑا امتحان ہے۔ ڈھاکہ یونیورسٹی کی پروفیسر زبیدہ نسرین کے مطابق، حکومت کو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ وہ غیر جانبدار رہتے ہوئے منصفانہ انتخابات کروا سکتی ہے۔ ماضی میں شیخ حسینہ کی عوامی لیگ کے دور میں بی این پی کو انتخابی عمل سے باہر رکھا گیا، جس کے نتائج عوام نے مسترد کر دیے تھے۔ اب عوامی لیگ پر انتخابی سرگرمیوں کی پابندی نے نیا تنازع کھڑا کیا ہے۔ تجزیہ کار سیف العالم چودھری کا کہنا ہے کہ عوامی لیگ کے حامیوں کی ایک قابل ذکر تعداد کو انتخابی عمل سے خارج کر کے جامع انتخابات کا انعقاد مشکل ہوگا۔ اگرچہ بین الاقوامی برادری نے ماضی کے انتخابات کو قبول کیا، لیکن عوامی عدم اطمینان نے ان کی ساکھ کو متاثر کیا۔ موجودہ حالات میں عبوری حکومت کو یہ یقینی بنانا ہوگا کہ تمام ووٹرز بلا رکاوٹ اپنا حق رائے دہی استعمال کر سکیں۔
الیکشن کمیشن کو ووٹر لسٹوں کی تیاری، حلقہ بندیوں کا تعین اور شفاف انتخابی عمل کے لئے اداروں کو آزادانہ کام کرنے کے قابل بنانے جیسے پیچیدہ چیلنجز کا سامنا ہے۔ کمیشن کے ترجمان نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ اپریل، 2026 تک انتخابات کے لئے تیار ہے، لیکن پروفیسر سیف العالم چودھری کے مطابق، کمیشن اب تک صرف ووٹر لسٹوں کی اپ ڈیٹنگ تک محدود رہا ہے۔ امن و امان کی صورتحال بھی ایک بڑا امتحان ہے۔ جولائی، 2024 کی بغاوت کے دوران ہلاکتوں کے مقدمات میں منصفانہ ٹرائل اور انسانیت کے خلاف جرائم کی تحقیقات عبوری حکومت کی ساکھ کے لیے اہم ہیں۔ اگر ان معاملات پر پیش رفت نہ ہوئی تو عوامی اعتماد مزید کمزور ہوگا۔
اقوام متحدہ کے نمائندے گوین لیوس نے تمام ووٹرز کی شرکت پر زور دیا ہے۔ عوامی لیگ کے حامیوں کو نظر انداز کرنا انتخابات کی ساکھ کو متاثر کر سکتا ہے۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اگر عبوری حکومت اصلاحات کو تیز کرے اور سیاسی جماعتوں میں اتفاق رائے پیدا کرے تو بنگلہ دیش سیاسی استحکام کی طرف بڑھ سکتا ہے۔ یونس نے اصلاحات اور انصاف کے وعدوں پر زور دیا ہے، لیکن گزشتہ گیارہ ماہ میں پیش رفت محدود رہی ہے۔ اگر حکومت ان چیلنجز سے نمٹنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو اپریل، 2026 کے انتخابات بنگلہ دیش کی تاریخ میں ایک نیا باب رقم کر سکتے ہیں۔ بصورت دیگر، سیاسی عدم استحکام اور افراتفری کا خطرہ برقرار رہے گا۔