تاثیر 1 جون ۲۰۲۵:- ایس -ایم- حسن
بہار کی سیاسی بساط پر گزشتہ تین دہائیوں سے اقتدار سے باہر بیٹھی انڈین نیشنل کانگریس ایک بار پھر اپنی کھوئی ہوئی زمین واپس لینے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ اس سال صوبے میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کے پیش نظر پارٹی میں سرگرمیاں عروج پر ہیں، لیکن داخلی انتشار اور تنظیمی ڈھانچے کی کمزوریاں اس کے راستے میں بڑی رکاوٹ بن رہی ہیں۔ ایک طرف کانگریس اپنے تنظیمی ڈھانچے کو وسعت دینے اور مرکز سے لے کر ضلع اور بلاک سطح تک اپنے پروگراموں کو فعال کرنے میں مصروف ہے، تو دوسری طرف صوبائی کانگریس کمیٹی کی تشکیل کا اہم معاملہ تاحال الجھا ہوا ہے۔ یہ صورتحال پارٹی کے اندر موجود ایک گروپ کی ناراضی کا سبب بن رہی ہے، جو صوبائی قیادت سے عدم اطمینان کا اظہار کر رہا ہے۔
اس انتخابی سال میں کانگریس کے مرکزی قیادت نے بہار میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کی ہیں۔ پارٹی کی کمان ڈاکٹر اکھلیش سنگھ سے ہٹا کر دو بار کے ایم ایل اے راجیش کمار کے حوالے کی گئی ہے۔ اس تبدیلی سے پارٹی کے پہلی اور دوسری صف کے رہنماؤں کو امید تھی کہ انتخابات سے قبل صوبائی ورکنگ کمیٹی کی تشکیل ہو جائے گی، لیکن مہینوں گزرنے کے باوجود اس سلسلے میں کوئی پیش رفت نظر نہیں آسکی ہے۔ پارٹی کے میڈیا ڈپارٹمنٹ کے چیئرمین راجیش راٹھوڑ دعویٰ کرتے ہیں کہ ورکنگ کمیٹی بنانے کی کوششیں جاری ہیں اور یہ صدر اور صوبائی انچارج کا خصوصی اختیار ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مرکزی قیادت بھی اس معاملے پر سرگرم ہے اور امید ہے کہ انتخابات سے قبل کمیٹی تشکیل پا جائے گی۔ تاہم، زمینی حقیقت اس دعوے سے مختلف ہے۔ گزشتہ دس سال سے بہار کانگریس ورکنگ کمیٹی کے بغیر کام کر رہی ہے۔ آخری بار 2013 میں ڈاکٹر اشوک چودھری کی صدارت میں 255 ارکان پر مشتمل ایک جامع کمیٹی تشکیل دی گئی تھی، جس میں 15 نائب صدور، 25 جنرل سیکریٹریز، 76 سیکریٹریز، 45 تنظیمی سیکریٹریز، 77 ایگزیکٹو ارکان اور ایک خزانچی شامل تھے۔
2016-17 میں ڈاکٹرچودھری کے پارٹی چھوڑنے کے بعد یہ کمیٹی تحلیل ہو گئی۔ اس کے بعد کوکب قادری کو قائم مقام صدر بنایا گیا، لیکن ان کا مختصر دور بھی کمیٹی کی تشکیل کے بغیر ختم ہو گیا۔ 2018 میں ڈاکٹر مدن موہن جھا صدر بنے، جنہوں نے چار سال تک صدارت سنبھالی۔ اس دوران لوک سبھا اور اسمبلی انتخابات ہوئے، لیکن وہ بھی ورکنگ کمیٹی تشکیل نہیںدے سکے۔ دسمبر 2022 میں ڈاکٹر اکھلیش سنگھ صدر بنے اور انہوں نے کمیٹی بنانے کی کوشش کی، لیکن صوبائی انچارج اور صدر کی الگ الگ فہرستوں کی وجہ سے معاملہ تعطل کا شکار ہو گیا۔ اس دوران لوک سبھا انتخابات بھی گزر گئے۔ اب راجیش کمار کے ہاتھوں میں پارٹی کی باگ ڈور ہے اور ان کے اور صوبائی انچارج کے درمیان بظاہر ہم آہنگی ہے۔ لیکن ورکنگ کمیٹی کی تشکیل کے بارے میں اب تک کوئی ٹھوس پیش رفت نہیں ہوسکی ہے۔
دوسری طرف، پارٹی نے ضلعی سطح پر نئے صدور کی تقرری کے ذریعے اپنی تنظیمی گرفت مضبوط کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن ورکنگ کمیٹی کا معاملہ اب بھی ٹھنڈے بستے میں ہے، جو پارٹی کے اندرونی نظم و ضبط اور فیصلہ سازی کے عمل کو کمزور کر رہا ہے۔ پارٹی رہنماؤں کی ناراضی کو نظر انداز کرتے ہوئے کانگریس فی الحال اپنے پروگراموں پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔ مثال کے طور پر، مارچ 2025 میں کانگریس کی یوتھ اور طلبہ شاخ نے بے روزگاری اور ہجرت جیسے مسائل کو اجاگر کرنے کے لیے ’پدیاترا‘ کا اعلان کیا تھا، جو بہار
کے عوام کے مسائل کو اٹھانے کی ایک اہم کوشش تھی۔ لیکن تنظیمی کمزوریوں کی وجہ سے ایسی مہمات کا خاطر خواہ اثر واضح طور پر کہیں نظر نہیں آ سکا۔
بہار کے سیاسی منظر نامے میں کانگریس کو اپنی ساکھ بحال کرنے کے لئے نہ صرف تنظیمی ڈھانچے کو مضبوط کرنا ہوگا بلکہ داخلی اختلافات کو بھی ختم کرنا ہوگا۔ ورکنگ کمیٹی کی عدم موجودگی پارٹی کے فیصلہ سازی کے عمل میں ایک بڑی خامی ہے، جو اسے انتخابی حکمت عملی تیار کرنے اور کارکنوں کو متحد کرنے میں پیچھے رکھتی ہے۔ اگر کانگریس کو بہار میں اپنی باوقار واپسی کے خواب کو حقیقت میں تبدیل کرنا ہے ہے تو اسے فوری طور پر اپنے تنظیمی ڈھانچے کو مضبوط کرنے اور داخلی ہم آہنگی کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔ کیا پارٹی یہ چیلنج قبول کر پائے گی، یا یہ محض ایک خواب ہی رہے گا؟ یہ سوال بہارکے عوام اور کانگریس کے کارکنوں کے ذہنوں میں اِن دنوں تیزی سےگردش کر رہا ہے۔