تاثیر 27 جون ۲۰۲۵:- ایس -ایم- حسن
بہار کے دارالحکومت پٹنہ کا گاندھی میدان، جو تاریخی تحریکات اور عوامی بیداری کی داستانوں کا گواہ ہے، کل 29 جون، 2025 (اتوار) کو امارت شرعیہ بہار، جھارکھنڈ، اڈیشہ اور مغربی بنگال کے زیر اہتمام ’’وقف بچاؤ، دستور بچاؤ کانفرنس‘‘ کے لئے تیار ہے۔مانا جا رہا ہے کہ یہ ریلی محض ایک احتجاج نہیں، بلکہ آئینی اقدار، مذہبی آزادی اور اقلیتی حقوق کے تحفظ کی ایک توانا آواز بھی ہے، جو بھارت کے سیکولر ڈھانچے کی حفاظت کے لئے بلند ہو رہی ہے۔ امارت شرعیہ نے عوام، بالخصوص مسلم برادری سے، بھرپور شرکت کی پرجوش اپیل کی ہے، تاکہ یہ اجتماع جمہوری اقدار اور سماجی ہم آہنگی کی ایک تاریخ ساز علامت بن جائے۔ یہ تحریک وقف ترمیمی قانون، 2025 کے خلاف ایک پرامن جدوجہد ہے، جو بھارت کے متنوع سماجی تان بانے اور آئینی وقار کو مضبوط کرنے کے عزم سے سرشار ہے۔ گاندھی میدان کا انتخاب اس تحریک کو تاریخی تناظر عطا کرتا ہے، کیونکہ یہ مقام آزادی کی جدوجہد سے لے کر کئی سماجی تحریکات کا مرکز رہا ہے۔
بلا شبہہ وقف ترمیمی قانون، 2025 نے ملک بھر میں شدید تنازع کو جنم دیا ہے۔ ناقدین، جن میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اور دیگر اہم ملّی، سماجی و سیاسی تنظیمیں شامل ہیں، نے اسے آئین کے سیکولر اصولوں اور اقلیتی حقوق کے لئے خطرہ قرار دیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ یہ قانون وقف املاک پر سرکاری کنٹرول کی بےجا طور پر حمایت کرتا ہے اور ملک کے ڈسٹرکٹ کلکٹروں کو غیر معمولی اختیارات دیتا ہے،جس سے وقف کے انتظامی ڈھانچے کی خودمختاری کو شدید نقصان اور خطرہ لاحق ہے۔ ناقدین اسے مذہبی آزادی پر قدغن کے طور پر دیکھتے ہیں، جو بھارت کے آئینی ڈھانچے کی روح کے منافی ہے۔ دوسری جانب، مرکزی وزیر قانون کرن رجیجو،جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی (جے پی سی) کے چیئرمین جگدمبکا پال اور بی جے پی، آر ایس ایس اور دیگر ’’ہندتو وادی‘‘ نظریہ کے حامی افراد اس قانون کو ایک اصلاح پسندانہ قدم قرار دیتے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ یہ قانون وقف بورڈز میں شفافیت لانے، بدعنوانی کو روکنے اور محروم طبقات، جیسے یتیموں، خواتین اور پسماندہ مسلمانوں کی بہبود کی ضمانت دیتا ہے۔ تاہم، جے پی سی میں اپوزیشن جماعتوں، اقلیتی نمائندوں اور دیگر متعلقین کا سیدھا الزام ہے کہ مشاورت کے عمل میں ان کی آواز کو دانستہ طور پر دبایا اورا ن کے تحفظات کو نظر انداز کیا گیا۔یعنی مشاورت کا پورا عمل ہی عدم شفافیت کا شکار رہا۔
ظاہر ہے کہ یہ تنازع اب قانونی میدان میں بھی شدت اختیار کر چکا ہے۔ سپریم کورٹ میں اس قانون کو متعدد عرضیوں کے ذریعے چیلنج کیا گیا تھا۔ معاملے کی سماعت کے دوران غیر مسلم اراکین کی وقف بورڈز میں مامور کئے جانے پر عبوری پابندی لگاتے ہوئے مرکزی حکومت سے سات دن میں جواب طلب کیا گیا تھا۔سماعت مکمل ہو چکی ہے۔فیصلہ عدالت نے فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔ملک کے کروڑوں امن و انصاف پسند لوگوں کو عدالت پر بھروسہ ہے۔ انھیں یقین ہے کہ عدالت کا فیصلہ بھارت کے آئینی اقدار کے تناظر میں وقف قانون کےمستقبل کا تعین کرے گا۔معاملے کی سماعت کے دوران ہی عدالت نے اس بات کی نشاندہی کر دی تھی کہ یہ معاملہ نہ صرف سیاسی یا سماجی ہے، بلکہ گہرے آئینی سوالات سے بھی جڑا ہواہے۔ کیا یہ قانون آئین کے بنیادی ڈھانچے کے مطابق ہے؟ کیا یہ اقلیتوں کے مذہبی اور انتظامی حقوق پر غیر ضروری پابندیاں عائد کرتا ہے؟ اس طرح کے کچھ ایسے سوالات ہیں، جو نہ صرف عدالت بلکہ عوام کے دلوں میں بھی گونج رہے ہیں۔
بہر حال کل پٹنہ کے گاندھی میدان میں منعقد ہونے والی مجوزہ ریلی وقف ترمیمی قانون، 2025 کے خلاف ایک تاریخی موڑ کی حیثیت رکھتی ہے۔ امارت شرعیہ کی اپیل میں اسے دین اور نبیﷺ سے محبت کا جمہوری مظاہرہ قرار دیا گیا ہے۔اس میں بڑے پیمانے پر دیگر مذاہب کے نمائندوں کی شرکت بھی متوقع ہے۔اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ محض ایک مذہبی ایشو نہیں، بلکہ ایک وسیع تر سماجی اور آئینی معاملہ ہے۔ اس تحریک کا دائرہ نہ صرف وقف املاک کی وکالت تک محدود ہے،بلکہ یہ بھارت کے سیکولر اصولوں اور متنوع تشخص کی حفاظت کی آئینی جدوجہد بھی ہے۔ اس اجتماع کی کامیابی پرامن اور ذمہ دارانہ اور قائدانہ انعقاد پر منحصر ہے۔ لہٰذا ، اس میںمنتظمین کو قانون اور ڈسپلین کی پاسداری کو یقینی بنانا ہوگا۔ یہ ریلی حکومت کے لئے بھی ایک سنہری موقع فراہم کرتی ہے کہ وہ قانون پر نظر ثانی کرے اور تمام فریقین سے گفت و شنید کے ذریعے قابل قبول حل تلاش کرے۔ یقین ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ اس تنازع کے قانونی حل میں کلیدی کردار ضرور ادا کرے گا۔ویسے مانا جا رہا ہے کہ کل پٹنہ کے گاندھی میدا ن سے اٹھنے وا لا ملک گیرانقلاب بھارت کے جمہوری، سیکولر اور متنوع تشخص کی حفاظت کی تاریخ ساز علامت بن کر ملک کے تمام شہریوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کی جانب حکومت کی توجہ مبذول کرانے میں کامیاب ہوگا۔