تاثیر 22 جون ۲۰۲۵:- ایس -ایم- حسن
ڈونلڈ ٹرمپ نے جنوری 2025 میں دوبارہ وھائٹ ہاؤس میں قدم رکھتے ہوئے خود کو ’’امن کا پیغامبر ‘‘ قرار دیا تھا، لیکن ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری تنازعے میں امریکہ کو براہِ راست شامل کر کے انہوں نے اپنے دعووں کی نفی کر دی ہے۔ ایران کے تین جوہری مقامات پر امریکی حملوں نے مشرق وسطیٰ کو ایک ایسی جنگ کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے، جس کے نتائج نہ صرف خطے بلکہ عالمی امن کے لئے تباہ کن ہو سکتے ہیں۔ یہ حملے، جو ٹرمپ نے’’شاندار کامیابی‘‘ قرار دیے ہیں، درحقیقت ایک خطرناک جُوا ہیں جو سیاسی، عسکری اور سفارتی سطح پر سنگین نتائج کا باعث بن سکتے ہیں۔
امریکہ کی اس جارحانہ کارروائی نے اسرائیل کے ساتھ مل کر ایران کے جوہری پروگرام کو نشانہ بنایا، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ حملے واقعی ایران کی عسکری صلاحیت کو کمزور کر پائیں گے؟ ایران کا دعویٰ ہے کہ اس کی انتہائی محفوظ دو تنصیب کو صرف معمولی نقصان پہنچا ہے، جبکہ ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ یہ کارروائی ’’دیرپا امن‘‘ کی راہ ہموار کرے گی۔ حقیقت جو بھی ہو، یہ واضح ہے کہ امریکی حملوں نے ایران کو مزید سخت ردعمل پر اکسایا ہے۔ آیت اللہ علی خامنہ ای کی دھمکی کہ وہ خطے میں امریکی اہداف کو نشانہ بنائیں گے، اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ یہ تنازعہ اب ایک وسیع تر جنگ کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے خبردار کیا کہ یہ حملے ’’افراتفری کا سلسلہ‘‘ شروع کر سکتے ہیں، اور یہ خدشہ بے بنیاد نہیں۔
ٹرمپ کی پالیسی پر تنقید کی ایک بڑی وجہ ان کا متضاد رویہ ہے۔ ایک طرف وہ ایران سے ’’غیر مشروط ہتھیار ڈالنے‘‘ کا مطالبہ کرتے ہیں، تو دوسری طرف امن کی بات کرتے ہیں۔ ان کے دو ہفتے کی مہلت کا اعلان، جو صرف دو دن میں حملوں کی صورت میں بدل گیا، یا تو سفارتی کوششوں کی ناکامی کی عکاسی کرتا ہے یا پھر ایک فریب تھا۔ یہ عجلت پسندی نہ صرف ایران کو مذاکرات سے دور کر رہی ہے بلکہ امریکہ کے اتحادیوں میں بھی بے چینی پیدا کر رہی ہے۔ اسرائیل، جو اس تنازعے کا مرکزی فریق ہے، اپنی عسکری کارروائیوں کے ذریعے ایران کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہا ہے، لیکن اس کے باوجود ایران کے پاس جوابی حملوں کی صلاحیت موجود ہے۔ اس صورتحال میں امریکہ کا براہِ راست مداخلت کرنا اسرائیل کے مفادات کی حمایت تو کرتا ہے، لیکن یہ خطے کے استحکام کے لئے زہر قاتل ہے۔
امریکہ کی اس پالیسی کے داخلی سیاسی مضمرات بھی سنگین ہیں۔ ٹرمپ کی ’’امریکہ فرسٹ‘‘ تحریک، جو غیر ضروری خارجہ مداخلتوں کی مخالف ہے، پہلے ہی اس فیصلے پر تنقید کر رہی ہے۔ نائب صدر جے ڈی وینس، جو خارجہ پالیسی کو محدود کرنے کے حامی ہیں، نے سوشل میڈیا پر ٹرمپ کی حمایت کی کوشش کی، لیکن اگر یہ تنازعہ طول پکڑتا ہے تو ٹرمپ اپنے حامیوں کو بھی ناراض کر سکتے ہیں۔ ڈیموکریٹس پہلے ہی اس حملے کو عالمی قوانین کی خلاف ورزی قرار دے رہے ہیں۔ ٹرمپ کا اپنے تین قریبی مشیروں(وینس، روبیو اور ہیگسیتھ)کو خطاب کے دوران ساتھ کھڑا کرنا شاید اپنی جماعت میں اتحاد کی کوشش تھی، لیکن یہ فیصلہ ان کی کمزوری کو بھی عیاں کرتا ہے۔
اسرائیل کی حمایت میں امریکہ کی یہ غیر مشروط وابستگی خطے میں اس کے اتحادیوں کے لیے بھی ایک پیغام ہے کہ وہ اسرائیل کے ایجنڈے کے تابع ہیں۔ یہ پالیسی نہ صرف ایران کے ساتھ مذاکرات کی راہ میں رکاوٹ ہے بلکہ روس اور چین جیسے ممالک کو بھی ایران کے ساتھ کھڑے ہونے کا موقع فراہم کر رہی ہے۔ اگر ایران جوابی حملوں میں کامیاب ہوتا ہے تو ٹرمپ کے لئے دوبارہ حملوں کا دباؤ بڑھے گا، جو ان کے سیاسی کیریئر کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔
آخر میں، یہ کہنا بجا ہوگا کہ ٹرمپ کی یہ ’’شاندار کامیابی‘‘ دراصل ایک سیاسی جُوا ہے، جس نے مشرق وسطیٰ کو مزید عدم استحکام سے دوچار کر دیا ہے۔ امن کی بجائے جنگ کے امکانات بڑھ گئے ہیں اور اس کا خمیازہ نہ صرف خطے بلکہ عالمی برادری کو بھی بھگتنا پڑ سکتا ہے۔ ٹرمپ کو اب سفارتی کوششوں کو ترجیح دینی چاہئے، ورنہ وہ خود کو اسی ’’امن قائم کرنے والے‘‘ دعوے کے برعکس ایک جنگجو صدر کے طور پر تاریخ میں رقم کرائیں گے۔