تاثیر 30 جون ۲۰۲۵:- ایس -ایم- حسن
اسمبلی انتخابات کا بگل بجنے سے پہلے ہی بہار کی سیاست نظریاتی، لسانی اور مذہبی پولرائزیشن کے گرد گھومنے لگی ہے۔’تو ڈال ڈال ، تو ہم پات پات‘ کی راہ پر چلتے ہوئے، بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے وقف ترمیمی قانون ، 2025 کے خلاف اپوزیشن اتحاد (انڈیا) کی مخالفت کو ایمرجنسی کے دور سے جوڑتے ہوئے کانگریس، راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی) ،سماجوادی پارٹی اور بائیں محاذ پر شدید تنقید کی ہے۔ راجیہ سبھا ممبر اور بی جے پی کے قومی ترجمان سدھانشو تریویدی نے اسے’’نمازواد‘‘ کا نام دیتے ہوئے دعویٰ کیاہے کہ یہ اتحاد سماجواد کے نظریاتی اصولوں سے منحرف ہو چکا ہے، جبکہ بی جے پی اور اس کے اتحادی جنتا دل (یونائیٹڈ) دولت کی عادلانہ تقسیم کے سماجوادی اصولوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔
انڈین اکسپریس کے مطابق بہار کی یہ نا زیبا سیاست اس وقت شدت اختیار کرگئی جب ریاست کے سابق نائب وزیراعلیٰ اور اپوزیشن لیڈر تیجسوی یادو نے 29 جون کو پٹنہ کے گاندھی میدان میںمتعدد ملّی ، سماجی اور سیاسی جماعتوں کی حمایت یافتہ ، امارت ِشرعیہ کے زیر اہتما م ، وقف ترمیمی قانون ، 2025کے خلاف منعقد عظیم الشان احتجاجی پروگرام ’’وقف بچاؤ، دستور بچاؤکانفرنس‘‘ میں اعلان کیا کہ اگر انڈیا اتحاد اقتدار میں آیا تو وہ وقف قانون کو’’ردی کی ٹوکری‘‘ میں پھینک دے گا۔ تریویدی نے اس بیان کو ایمرجنسی کے دور سے تشبیہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ وہی گاندھی میدان ہے جہاں لاکھوں لوگوں نے آئین کے تحفظ کے لئے جدوجہد کی تھی، اور اب وہاں ایک اتحادی رہنما پارلیمان سے منظور شدہ قانون کو رد کرنے کی بات کر رہا ہے۔ انہوں نے الزام لگایا ہےکہ انڈیا اتحاد نہ تو پارلیمان کا احترام کرتا ہے اور نہ ہی عدلیہ کا، بلکہ صرف ووٹ بینک کی سیاست کو ترجیح دیتا ہے۔
سدھانشو تریویدکا دعویٰ ہے کہ بی جے پی اور این ڈی اے ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کے آئین پر کسی بھی حملے کو روکنے کے لیے پرعزم ہیں۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا وقف ایکٹ کے وہ اصول، جن کی انڈیا اتحاد مخالفت کر رہا ہے، سعودی عرب، انڈونیشیا، ترکی، پاکستان، یا بنگلہ دیش جیسے مسلم ممالک میں موجود ہیں؟ انہوں نے آر جے ڈی اور سماجوادی پارٹی سے پوچھا ہےکہ کیا وہ بہار میں ان ممالک سے بڑھ کر شرعیہ قانون نافذ کرنا چاہتے ہیں؟ ان کا الزام ہے کہ یہ جماعتیں، جو سماجواد کا لبادہ اوڑھتی ہیں، 39 لاکھ ایکڑ زمین پر چند افراد کے کنٹرول کی حمایت کر رہی ہیں۔ان کا یہ رویہ دولت کی عادلانہ تقسیم کے سماجوادی اصولوں کے منافی ہے۔
اخبار کے مطابق بی جے پی نے اس تنازعہ کو سماجواد کے بانیوں، جیسے کرپوری ٹھاکر، جے پرکاش نارائن اور رام منوہر لوہیا کے نظریات سے جوڑتے ہوئے دعویٰ کیا ہےکہ آج وہی اس نظریے کی علمبرداری کر رہی ہے، جبکہ آر جے ڈی اور سماجوادی پارٹی ’’نمازواد‘‘ کی طرف مائل ہیں۔ تریویڈی نے یہ بھی الزام لگایا ہےکہ انڈیا اتحاد اقلیتی اداروں کو خصوصی درجہ دے کر پسماندہ طبقات (ایس سی/ایس ٹی/او بی سی) سے ریزرویشن چھیننے کی کوشش کر رہا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ملک امبیڈکر کے آئین کے مطابق چلے گا، نہ کہ شریعت کے احکام کے مطابق۔بے جے پی کے قومی ترجمان سدھانشو تریویدی کو اس بات پر شدید اعتراض ہے کہ انڈیا اتحادوقف ترمیمی قانون ، 2025 کی اتنی شدت سے مخالفت کیوں کر رہا ہے۔انھوں نے اس مخالفت کا نام ’’ووٹ بینک کی سیاست‘‘ رکھا ہے۔جبکہ بعض ناقدین بی جے پی کے اس بیانیے کو اس کے مبینہ اسلام مخالف ایجنڈے سے جوڑتے ہیں، جو اس کی حالیہ سیاسی حکمت عملی کا حصہ رہا ہے۔ بی جے پی نے بارہا مسلم کمیونٹی سے متعلق قوانین، جیسے کہ ’طلاق ثلاثہ ‘یا ’وقف ایکٹ‘ وغیر پر تنقید کرتے ہوئے انہیں غیر آئینی یا غیر منصفانہ قرار دیا ہے۔ اس تنازعہ میں’’نمازواد‘‘ جیسے لفظ کا استعمال اسی بیانیے کی ایک کڑی معلوم ہوتا ہے، جو مسلم کمیونٹی کو ایک سیاسی ہدف کے طور پر پیش کرتا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ بی جے پی اس طرح کے بیانات سے سماجوادی اصولوں کو کمزور کرنے کی بجائے مذہبی پولرائزیشن کو ہوا دے رہی ہے، جو بہار جیسے متنوع صوبے میں سماجی ہم آہنگی کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔
بی جے پی کا یہ دعویٰ کہ وہ سماجواد کے اصل اصولوں کی پاسداری کر رہی ہے، جبکہ انڈیا اتحاد شریعت کی حمایت میں’’نمازواد‘‘ کی طرف مائل ہے، ایک واضح سیاسی چال کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ یہ بیانیہ نہ صرف اپوزیشن کو نظریاتی طور پر کمزور کرنے کی کوشش ہے، بلکہ بہار کے آئندہ اسمبلی انتخابات میں ووٹروں کو مذہبی اور لسانی خطوط پر تقسیم کرنے کا ایک ذریعہ بھی ہے۔ بی جے پی کی یہ حکمت عملی ماضی میں بھی کامیاب رہی ہے، جہاں اس نے’’ ہندوتو‘‘ کے ایجنڈے کو سماجی انصاف کے دعوؤں کے ساتھ ملا کر اپنی سیاسی پوزیشن مضبوط کی۔ لیکن اس بار، بہار جیسے صوبے میں، جہاں سماجوادی تحریک کی گہری جڑیں ہیں، یہ حکمت عملی الٹا بھی پڑ سکتی ہے۔
ظاہرہےیہ تنازعہ محض وقف ترمیمی قانون ، 2025تک محدود نہیں، بلکہ اس نے بہار کی انتخابی سیاست کو ایک نئے موڑ پر لا کھڑا کیا ہے۔ بی جے پی اسے ایک موقع کے طور پر استعمال کر رہی ہے ۔وہ انڈیا اتحاد کو اکثریتی طبقہ میں نظریاتی طور پر کمزور ثابت کرکے اپنا سر اونچا کرنا چاہتی ہے، جبکہ اپوزیشن اسے مذہبی اور لسانی جذبات سے جوڑ کر ووٹ بی جے پی کے ’’سماجواد‘‘ کے دعوے کی پول کھولنے میں لگی ہے۔یہ سیاسی داؤ پیچ بہار کے آئندہ انتخابات میں کس سمت جاتا ہے، یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا۔ کیا یہ تنازعہ سماجواد کے نظریات کو تقویت دے گا ؟ یا مذہبی عصبیت کو ہوا دے کر سماجی ہم آہنگی کو نقصان پہنچائے گا؟ اس کا فیصلہ وقت اور عوام کریں گے۔
*********************