فلسطین کی قربانیاں اور عالمِ اسلام

تاثیر 5 جون ۲۰۲۵:- ایس -ایم- حسن

آج فلسطین میں عیدالاضحی ہے۔وہی عید الاضحی جو امت مسلمہ کے لئے ایثار، قربانی اور اخوت کا پیغام لے کر آتی ہے، مگر اس بار بھی فلسطین کے مظلوم عوام کے لئے یہ دن خوشیوں کے بجائے آنسوؤں، ملبوں، شہادتوںاور زخمیوں کی تعداد کے گراف میں اضافے کا پیغام لے کر آیا ہے۔ غزہ کی گلیاں خون سے رنگین ہیں، بچے عید کی نئی پوشاکوں کے بجائے کفن میںلپیٹے جا رہے ہیں اور مسجد اقصیٰ کے مینار ایک بار پھر صہیونی جارحیت کی گواہی دے رہے ہیں۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ اس انسانی المیے پر عالم اسلام کا کیا رویہ ہے؟
فلسطینیوں کے لئے ہر عید ایک نیا امتحان لے کر آتی ہے۔ رواں برس کے آغاز سے لے کر اب تک اسرائیل کے حملوں میں ہزاروں فلسطینی شہید اور لاکھوں بےگھر ہو چکے ہیں۔ اسپتالوں، اسکولوں، پناہ گاہوں حتیٰ کہ عبادت گاہوں پر بھی بمباری کی جا رہی ہے۔ مگر عالم اسلام کا اجتماعی ردِعمل صرف زبانی بیانات اور چند علامتی احتجاجی جلسوں سے آگے نہیں بڑھ پا رہا ہے۔اسلامی تعاون تنظیم(او آئی سی) ،جو مسلمانوں کے اجتماعی فیصلوں کا ایک بین الاقوامی فورم ہے، اپنی موجودگی کو ثابت کرنے میں مسلسل ناکام رہی ہے۔ جب امت کا ایک حصہ بدترین نسل کشی کا شکار ہو، تو او آئی سی کا خاموش رہنا یا رسمی بیانات جاری کرنا نہ صرف مایوس کن ہے بلکہ یہ اس کی افادیت پر بھی ایک بڑا سا سوالیہ نشان ہے۔
بعض عرب ممالک نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو مزید مضبوط کیا ہے۔ معاہداتِ ابراہیم کے تحت تعلقات بحال کرنے والے ممالک کی خاموشی، بلکہ بعض کی عملی چشم پوشی، فلسطینی عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔ دوسری طرف، عوامی سطح پر کئی اسلامی ممالک میں شدید ردعمل اور احتجاج دیکھنے میں آیا ہے، مگر افسوس ہے کہ یہ جذبہ حکومتی پالیسی میں منتقل نہ ہو سکا ہے۔ واضح ہو کہ معاہداتِ ابراہیمی 2020 میں امریکہ کی ثالثی سے طے پائے تھے، جس کے تحت متحدہ عرب امارات، بحرین، سوڈان اور مراکش نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کیے تھے۔ اس کا مقصد مشرق وسطیٰ میں امن، اقتصادی تعاون اور ایران کے اثر کو کم کرنا تھا۔ یہ معاہدات ابراہیمی مذاہب( اسلام، یہودیت اور عیسائیت) کے مابین ہم آہنگی کی علامت سمجھے گئے تھے۔ تاہم، فلسطینی کاز سے انحراف اور اسرائیل کو تسلیم کرنے کی متنازعہ کوشش کے طور پر اس پر تنقیدیں بھی ہوتی رہی ہیں ۔ فلسطین میں جاری ظلم، خصوصاً غزہ پر حملوں نے ممالک کے امن پسند دعووں کو غلط ٹھہراتا ہے۔ عرب عوام کی بڑی تعداد ان کی مخالفت اور فلسطینیوں سے یکجہتی کرتی ہے۔
  عید الاضحی قربانی کا درس دیتی ہے۔ حضرت ابراہیمؑ نے اپنے بیٹے کی قربانی کے جذبے سے ثابت کیا کہ اللہ کی راہ میں سب کچھ نچھاور کیا جا سکتا ہے۔ آج فلسطینی بھی اسی سنت کو زندہ کیے ہوئے ہیں۔ وہ اپنی جان، مال اور گھربار اللہ کی رضا کے لیے قربان کر رہے ہیں۔ ان کے عزم و ہمت کو سلام، مگر سوال یہ ہے کہ باقی امت ان کے ساتھ کھڑی کیوں نہیں ہو رہی ہے؟ کیا ہمارے حکمرانوں کے دل سخت ہو چکے ہیں؟ کیا تیل، تجارت اور اقتدار کی سیاست نے ہمارے ایمان کو کمزور کر دیا ہے؟
مسلم ممالک کو یہ سوچنا ہوگا کہ اگر ہم نے آج فلسطین کے لئے آواز نہ اٹھائی، تو کل ان کے اپنے خطے بھی محفوظ نہیں رہیں گے۔ فلسطین کوئی علاقائی مسئلہ نہیں، یہ ایک اسلامی اور انسانی مسئلہ ہے۔ مسجد اقصیٰ کی حفاظت ہماری ایمانی غیرت کا مسئلہ ہے۔ ہمیں دنیا کو یہ واضح پیغام دینا ہوگا کہ فلسطین کی آزادی تک امت مسلمہ چین سے نہیں بیٹھے گی۔اس موقع پر عالمی برادری، خاص طور پر اسلامی ممالک، کو چاہئے کہ وہ فلسطینیوں کے حقِ خود ارادیت کی حمایت میں متحدہ آواز بلند کریں۔ اقوام متحدہ میں مؤثر سفارتی دباؤ ڈالا جائے، اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جائے، اور فلسطینی عوام کی عملی امداد کی جائے۔کیا یہ صحیح ہے کہ عیدالاضحی کے موقع پر اگر ہم صرف اپنے گھروں میں قربانی کے جانور ذبح کریں اور مظلوم مسلمانوں کی آہوں پر خاموش رہیں ؟  کیا اس طرح سے ہماری عبادت کا روحانی پہلو نامکمل رہ جائے گا ؟  قربانی کا اصل مفہوم تو یہی ہے کہ ہم اپنے آرام، سہولت اور خاموشی کو خیر باد کہہ کر مظلوموں کے حق میں آواز بلند کریں، چاہے اس کے لئے کوئی ذاتی قیمت ہی کیوں نہ ادا کرنی پڑے۔
لہٰذا، اپنے ضمیر کی آنکھیں کھولئےاور غور سے دیکھئے،فلسطین کے معصوم چہرے ہماری اور آپ کی طرف کتنی حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں۔ ان کی آنکھوں میں کئی طرح کےسوالات تیر رہے ہیں۔ان میں ایک سوال یہ بھی ہے کہ ’’کیا امت مسلمہ ہماری قربانیوں کو دیکھ رہی ہے؟‘‘ یاد رکھئے ! ہمیں فلسطین کے ان مظلوموں کےتمام سوالوں کا جواب دینا ہوگا ۔ عمل سے، اتحاد سے اور حقیقی قربانی سے۔ بصورت دیگر ایک دن ہمارا بھی نمبر آئے گا اور تب سمجھ میں آئے گا کہ ’’ہماری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں‘‘ کا اصل مفہوم کیا ہے؟!
*******