تاثیر 31 اکتوبر ۲۰۲۵:- ایس -ایم- حسن
بہار اسمبلی انتخابات سے ٹھیک قبل مکامہ میں راشٹریہ جنتا دل حامی ایک لیڈر کے بہیمانہ قتل نے نہ صرف انتخابی ماحول کو گرما دیا ہے بلکہ ریاست کی دیرینہ خوں چکاں چناوی سیاست کے بدنما چہرے کو ایک بار پھر نمایاں کر دیا ہے۔گزشتہ روز دُلار چند یادو کے ہوئے قتل نے چند برسوں کے توقف کے بعد اس سوال کو پھر زندہ کر دیا ہے کہ کیا بہار کی چناوی سیاست اب بھی بے راہ روی کا شکار ہے؟ قرائن بتاتے ہیں کہ یہ واردات محض ایک اتفاقی تصادم کا نتیجہ نہیں ہے۔ عینی شاہدین اور مقتول کے خاندان والوں کے مطابق، قتل منظم منصوبے کا حصہ تھا۔پہلے اینٹ پتھر برسائے گئے، پھر گولیاں چلیں۔اس طرح ایک انسان کو پہلے زخمی کیا گیا، اسے گاڑیوں سے روندا گیا اور پھر سر میں گولیاں اتار دی گئیں۔اس واردات کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ یہ سب کچھ اُس وقت ہوا جب وہاں انتخابی تشہیر زوروں پر تھی اور کئی امیدواروں کے قافلے گزر رہے تھے۔ اس دوران سرکاری سکیورٹی اہلکاروں کی موجودگی کے باوجود مداخلت نہ ہونا، اپوزیشن کو ریاستی نظامِ امن پر سنگین سوال کھڑا کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔
مکامہ کی زمین نے گزشتہ چار دہائیوں میں سیاست اور جرم کے ایسے امتزاج کو جنم دیا ہے ،جس کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ 1980 کی دہائی سے یہاں طاقت، دولت اور اثرورسوخ کا کھیل سیاسی بیداری کے نام پر کھیلا جاتا رہا ہے۔ کبھی یہ عناصر اقتدار کے ایوانوں کے سہارا بنے، تو کبھی خود ایوانوں پر قابض ہو گئے۔ وہ دور یاد آتا ہے جب دبنگوں نے انتخابی نتائج پر اثر ڈالنے کےلئے مقامی غنڈوں کا سہارا لیا۔ پھر یہ غنڈے ہی ’’عوامی نمائندے‘‘ بن گئے اور ’’جرم‘‘ سیاست کی پہچان بنتا چلا گیا۔اس طرح مکامہ کی سیاسی تاریخ میں ایسے کئی کردار ابھرتے اور مٹتے رہے، جنہوں نے اپنے حامیوں کے دم پر اقتدار کا مزہ لوٹا۔ 1990 کی دہائی میں جب بادل سنگھ، دُلار چند یادو، اور دیگر دبنگ عناصر مقامی سیاست میں قدم رکھ رہے تھے، تب ہی سے انتخابی مقابلے طاقت اور تشدد کے کھیل میں تبدیل ہونے لگے۔ افسوس کہ آج بھی وہی روایت برقرار ہے، صرف چہرے بدل گئے ہیں۔
سیاسی مبصرین کا ماننا ہے کہ سیاسی جماعتوں کی روش بھی اس المیے کے لئے کم ذمہ دار نہیں ہیں۔ ہر دور میں پارٹیوں نے ایسے افراد کو امیدوار بنایا ہے، جن کا ماضی صاف نہیں تھا، صرف اس لئے کہ ان کے پاس ’’اثر‘‘ تھا۔ یہی ’’اثر‘‘ اب خوف کی صورت میں عوام کے سامنے ہے۔ مکامہ، جہاں کبھی بڑی صنعتیں اور زراعتی زمینیں ترقی کی علامت تھیں، آج جرم اور سیاست کے گٹھ جوڑ کا استعارہ بن چکا ہے۔دُلار چند یادو کے خلاف بھی پہلے سے کئی مقدمات تھے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مکامہ میں ’’سیاست بمقابلہ جرم‘‘ نہیں بلکہ ’’جرم بمقابلہ جرم‘‘ کی فضا قائم ہو چکی ہے۔ آج کے سیاسی منظرنامے میں ایسا لگتا ہے جیسے ہر امیدوار اپنے دفاع کےلئے قانون سے زیادہ اسلحہ پر بھروسہ کرتا ہے۔ نتیجہ یہ کہ عوامی مسائل، روزگار، تعلیم، صحت، کہیں پس منظر میں چلے گئے ہیں، اور سیاسی گفتگو کا مرکز خوف، طاقت اور انتقام بن چکا ہے۔
انتخابات کے دہانے پر ایسی واردات ریاستی اداروں کی ساکھ پر بھی کاری ضرب لگاتی ہے۔ پولیس اگر چاہے تو چند گھنٹوں میںحقیقت تک پہنچ سکتی ہے، مگر تجربہ بتاتا ہے کہ سیاسی دباؤ اکثر انصاف کی راہ میں دیوار بن جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہار کی سیاسی و سماجی فضا میں ہر انتخاب سے پہلے عموماََ یہی سوال گردش کرنے لگتا ہے ’’کیا اس بار ووٹ کی طاقت بندوق کے زور پر بھاری پڑےگی؟‘‘
مکامہ کی یہ تازہ واردات دراصل بہار کی سیاست کے اُس سیاہ باب کی ایک نئی قسط ہے، جولگتا ہےکہ کبھی ختم نہیں ہوگی۔ایسے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام محض ذات برادری، دھرم و مذہب کے جال میں پھنس کر یا دبنگوں کے خوف ودہشت کے سائے میںووٹ نہ دیں، بلکہ ایسے نظام کا مطالبہ کریں جو سیاست کو دوبارہ اخلاقیات سے جوڑ سکے۔ اگر ووٹر اپنی ترجیحات بدل لیں تو شاید وہ دن دور نہیں جب مکامہ جیسے خطے میں بندوقوں کے سائےسے باہر نکل کراخلاقی تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے ترقی کی راہ پر چلنا شروع کر دیں۔ ایک بڑا سوال یہ ہے کہ کیا اب بھی وقت نہیں آیا ہے کہ ریاست کے ووٹرز اپنے ووٹوں کی طاقت سے مجرمانہ کردار کے حامل افراد کو ایوان میں داخل ہی نہیں ہو نے دیں؟ اگر نہیں، تو پھر سوچئے، ہماری سیاست کے لئے اس سے بڑا لمحۂ فکریہ اور کیا ہوگا ؟

