بہار اسمبلی انتخابات : اتحاد کا امتحان، قیادت کا چیلنج

تاثیر 8 اکتوبر ۲۰۲۵:- ایس -ایم- حسن

بہار اسمبلی انتخابات کی گہماگہمی تیز ہو چکی ہے، مگر میدانِ سیاست میں فی الحال سب سے بڑی گتھی ’’سیٹوں کی تقسیم‘‘ کی ہے۔ ایک طرف عظیم اتحاد کے اندر راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی) اور سی پی آئی( ایم ایل) کے درمیان تنازعہ شدت اختیار کر چکا ہے، تو دوسری طرف این ڈی اے کے اندر بھی بی جے پی اور چراغ پاسوان کی پارٹی لوک جن شکتی پارٹی (رام ولاس) کے درمیان نشستوں پر کشمکش جاری ہے۔ دونوں اتحادوں کے لئے یہ مرحلہ نہ صرف انتخابی تال میل کا ہے بلکہ قیادت کے تدبر اور سیاسی وسعتِ نظر کا بھی امتحان ہے۔
عظیم اتحاد کے اندر بظاہر چھوٹا دکھائی دینے والا اختلاف دراصل ایک بڑے اصولی سوال کی نمائندگی کرتا ہے۔ سی پی آئی( ایم ایل)، جو 2020 کے انتخابات میں 19 نشستوں پر لڑ کر 12 میں کامیاب ہوئی تھی، اس بار تقریباً 30 سیٹوں کا مطالبہ کر رہی ہے۔ آر جے ڈی نے اسے 19 نشستوں کی پیش کش کی ہے، جسے پارٹی نے ’’ غیر موقر‘‘ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے۔ سی پی آئی (ایم ایل) کا استدلال ہے کہ اس نے گزشتہ انتخابات میں اتحاد کو مضبوط کیا ، زمینی سطح پر اپنا اثر بڑھایا، اور 2024 کے لوک سبھا انتخابات میں بھی دو نشستوں پر جیت حاصل کی۔ ایسے میں اسے محض رسمی شراکت دار کے طور پر نظرانداز کرنا اتحاد کے لئے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔
دوسری جانب آر جے ڈی کو بھی قیادت کا ایک بڑا چیلنج درپیش ہے۔ تیجسوی یادو کو ایک جانب اپنے اتحادیوں کو مطمئن رکھنا ہے تو دوسری جانب اپنی پارٹی کے کارکنوں کی خواہشات اور زمینی حقیقتوں کا بھی خیال رکھنا ہے۔ سیٹوں کی تقسیم میں اگر مساوات اور شفافیت کا فقدان رہا توعظیم اتحاد میں دراڑ پڑ سکتی ہے، جس کا سیاسی فائدہ سیدھے طور پر این ڈی اے کو ہوگا۔ یاد رہے کہ عظیم اتحاد میں کانگریس، سی پی آئی، سی پی آئی( ایم ایل) اور وکاس شیل انسان پارٹی جیسے چھوٹے مگر بااثر جماعتیں شامل ہیں، جن کی ناراضگی اتحاد کے لئے نقصاندہ ثابت ہو سکتی ہے۔
این ڈی اے کے خیمے میں بھی تصویر بہت مختلف نہیں ہے۔ بی جے پی اور اس کے اتحادیوں کے درمیان بھی نشستوں کی رسہ کشی چل رہی ہے۔ چراغ پاسوان کی قیادت والی لوک جن شکتی پارٹی (رام ولاس) 45 سے 54 نشستوں کی دعوے دار ہے، جبکہ بی جے پی محض 20 سے 25 نشستوں پر رضامند ہے۔ چراغ پاسوان کا موقف ہے کہ جن پانچ لوک سبھا حلقوں میں ان کی پارٹی نے کامیابی حاصل کی، ان میں سے ہر ایک میں کم از کم دو اسمبلی نشستیں ان کے کھاتے میں آنی چاہئیں۔ یہی نہیں، انہوں نے اپنے دو قریبی ساتھیوں کےلئے ’’برہم پور‘‘ اور ’’گووند گنج ‘‘جیسی مخصوص نشستوں کی بھی مانگ کی ہے۔دوسری جانب ہندوستانی عوام مورچہ (سیکولر) کے رہنما اور مرکزی وزیر جیتن رام مانجھی کم از کم 15 نشستوں کی خواہش رکھتے ہیں، جبکہ بی جے پی انہیں صرف 10 دینے پر آمادہ ہے۔ یہ واضح ہے کہ بی جے پی اپنے اتحادیوں کو محدود دائرے میں رکھنے کی کوشش کر رہی ہے، تاکہ وہ خود زیادہ نشستوں پر امیدوار کھڑے کر کے اقتدار کی کنجی اپنے ہاتھ میں رکھ سکے۔ تاہم، چھوٹی پارٹیوں کا بڑھتا ہوا دباؤ این ڈی اے کی اتحاد پسندی پر سوالیہ نشان کھڑا کررہا ہے۔
سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بار کے انتخابات میں ’’سیٹوں کی سیاست‘‘ محض گنتی کا کھیل نہیں بلکہ نظریاتی وابستگی اور قیادت پر اعتماد کا امتحان ہے۔عظیم اتحاد اگر اپنے اندر اختلافات پر قابو نہیں پاتا ہےتو اس کی تصویر ووٹروں کے سامنے بکھری ہوئی نظر آئے گی، اور عوام میں یہ پیغام جائے گا کہ اپوزیشن ابھی تک متحد قیادت دینے میں ناکام ہے۔ دوسری طرف، این ڈی اے اگر اپنے اتحادیوں کی جائز مانگوں کو مسلسل نظرانداز کرتا رہا تو ووٹروں کے درمیان اس کا ’’اتحاد‘‘ بھی کمزور تاثر کے ساتھ سامنے آئے گا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں اتحادوں کے اندرونی اختلافات کا مرکز چھوٹی پارٹیاں ہیں، مگر ان ہی پارٹیوں کے پاس زمینی سطح پر وہ ووٹ بینک ہے، جو کسی بھی انتخابی نتیجے کو پلٹ سکتا ہے۔ سی پی آئی (ایم ایل) کی تنظیمی قوت اور چراغ پاسوان کے نوجوان ووٹروں کے درمیان اثر کو نظرانداز کرنا کسی بھی بڑی پارٹی کےلئے خطرناک ہو سکتا ہے۔یہ حقیقت بھی نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ سیٹوں کی تقسیم میں تاخیر دونوں اتحادوں کے لئے نقصان کا باعث بن سکتی ہے، کیونکہ انتخابی عمل تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے، پہلا مرحلہ 10 اکتوبر سے شروع ہو رہا ہے۔ ایسے میں دیر سے ہونے والے فیصلے تنظیمی تیاریوں، امیدواروں کے انتخاب، اور مہم کے توازن کو متاثر کر سکتے ہیں۔چنانچہ یہ کہنا بجا ہوگا کہ بہار میں اصل لڑائی اب صرف اقتدار کی نہیں بلکہ ’’اتحاد کی بقا‘‘کی ہے۔ اگر قیادتیں دانشمندی اور رواداری سے کام لیں تو سیاسی توازن برقرار رہ سکتا ہے، لیکن اگر انا اور مفادات حاوی ہو گئے تو سیٹوں کی یہ رسہ کشی آخرکار شکست و ریخت میں تبدیل ہو سکتی ہے۔
************