تاثیر 6 اکتوبر ۲۰۲۵:- ایس -ایم- حسن
اس بار بہار اسمبلی انتخابات میں وہ طبقہ سب سے زیادہ متحرک اور فیصلہ کن کردار ادا کرنے جا رہا ہے، جسے کبھی محض گھریلو دائرے تک محدود سمجھا جاتا تھا۔وقت کے ساتھ اس خواتین طبقے میں نہ صرف اپنے حقوق کے تئیں بیداری پیدا ہوئی ہے بلکہ اس نے اپنے فیصلوں کی آزادی بھی حاصل کی ہے۔بہار کی یہ خواتین اب صرف ’’ووٹر لسٹ‘‘ کا حصہ نہیں رہ گئی ہیں، بلکہ ایک باشعور، خودمختار اور مؤثر ووٹ بینک کے طور پر بھی ابھرکر سامنے آئی ہیں۔ پہلے عموماََ خواتین کا ووٹ شوہر، بھائی یا سماجی دباؤ کے تابع ہوتا تھا، مگر اب وہ اپنی سیاسی ترجیحات خود طے کر رہی ہیں۔ یہی تبدیلی بہار کے جمہوری منظرنامے کی آج سب سے بڑی علامت ہے۔
گزشتہ ایک دہائی میں بہار کی خواتین کے شعور میں جو بیداری پیدا ہوئی ہے، وہ مختلف سرکاری اسکیموں، تعلیمی مواقع اور خود روزگاری کے امکانات کی دین ہے۔مکھیہ منتری روزگار یوجنا، جیویکا گروپ، سائیکل یوجنا، اسٹوڈنٹ کریڈٹ کارڈ، اجولا اسکیم، اور نل جل یوجنا جیسے منصوبوں نے بہار کی خواتین کے اندر خود اعتمادی کا ایک نیا احساس جگایا ہے۔ اب وہ گھر چلانے کے ساتھ ساتھ، اپنی شخصیت اور سماج کو بھی بدلنے کی مہم میں شب وروز شریک ہیں۔ منیا دیوی جیسی خواتین جو کبھی بکریاں پال کر گھر چلاتی تھیں، آج اپنی ڈیری چلا رہی ہیں۔ رخسانہ جیسی خواتین سلائی کڑھائی سے کمائی کر کے اپنے بچوں کو پٹنہ میں تعلیم دلا رہی ہیں۔رادھا دیوی، جو کبھی سائیکل اسکیم کی پہلی مستفید تھیں، آج گریجویشن مکمل کر کے معلمہ بننے کا خواب دیکھ رہی ہیں۔ یہ چند مثالیں نہیں بلکہ پورے بہار کی کہانی ہیں، ایک ایسی کہانی، جس میں عورت اب تماشائی نہیں بلکہ محرک کے طور پر سماج میں اپناکردار ادا کر رہی ہیں۔سیاسی سطح پر بھی ان کی بیداری نے تمام جماعتوں کو نئی حکمت عملی اپنانے پر مجبور کیا ہے۔کوئی بھی پارٹی اب ’’مہلا شکتی‘‘ کے نعرے کے بغیر اپنی مہم مکمل نہیں سمجھتی۔ وزیر اعظم نریندر مودی کا یہ جملہ ’’مہلا شکتی ہی بھارت کی اصلی طاقت ہے‘‘ صرف نعرہ نہیں بلکہ موجودہ سیاسی حقیقت کا اعتراف ہے۔پچھلے چند برسوں میں بہار کے دیہی علاقوں کی خواتین نے اپنے گھروں کے دروازے سے نکل کرگرام پنچایتوں، تعلیمی اداروں اور چھوٹے کاروباروں میں اپنی مضبوط موجودگی درج کرائی ہے۔ مکھیا، پنچ اور وارڈ ممبرکے طور پر ان کا بڑھتا ہوا کردار یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ اب صرف ووٹ دینے والی نہیں بلکہ فیصلہ لینے والی طاقت بھی ہیں۔
بہار میں خواتین کی معاشی خودمختاری کی کہانی بھی کم متاثر کن نہیں ہے۔ جیویکا گروپس نے ہزاروں عورتوں کو چھوٹے کاروبار سے جوڑ کر انہیں ’’لکھپتی دیدی‘‘ بنانے کا خواب دکھایا ہے۔ مدھوبنی کی مصور خواتین اپنے فن پاروں کو بین الاقوامی بازار میں بیچ رہی ہیں۔’’ڈرون دیدی‘‘ جیسی مثالیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ عورت اب محض گھریلو کردار نہیں، بلکہ ٹکنالوجی، زراعت، اور اختراع کے میدان میں بھی قیادت کر رہی ہے۔تاہم یہ سفراتنا آسان بھی نہیں تھا۔ آج بھی دیہی علاقوں میںپدرانہ سوچ، وسائل کی کمی، اور ڈیجیٹل ناخواندگی جیسی رکاوٹیں موجود ہیں۔ بعض اسکیموں میں بدعنوانی، تاخیر اور عدم شفافیت بھی خواتین کی پیش رفت کو متاثر کرتی ہیں۔ لیکن ان سب کے باوجود ان خواتین نے ہار نہیں مانی ہے۔ انہوں نے صبر، استقامت اور جہد مسلسل کے ذریعے وہ راستے کھولے ہیں، جو پہلے صرف خواب میں نظر آتے تھے۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ اس بار بہار اسمبلی انتخابات میں عورتوں کا ووٹ ہی فیصلہ کن ثابت ہوگا۔ ان کا ووٹنگ پیٹرن اب صرف خاندانی یا برادری کے دباؤ میں نہیں، بلکہ اپنی فلاح اور سماجی انصاف کے اصولوں پر مبنی ہے۔ یہ تبدیلی بہار کی سیاست کو اس کی روایتی محدودیت سے نکال کر ایک زیادہ جامع، حساس اور ترقی پسند سمت میں لے جا سکتی ہے۔چنانچہ یہ امر خوش آئند ہے کہ اب چوپالوں، محلّوںاور شہروں میں گفتگو ذات یا برادری پر نہیں بلکہ عورتوں کے رجحان پر مرکوز ہے۔اب وہی طے کریں گی کہ اقتدار کی باگ ڈور کس کے ہاتھ میں جائے۔ وہی یہ فیصلہ کریں گی کہ بہار کی آئندہ نسل کس نظریے کی فضا میں سانس لے گی۔درحقیقت خواتین کی یہ بیداری محض سیاسی منظرنامے کی تبدیلی نہیں بلکہ ایک سماجی اور فکری انقلاب کی بنیاد ہے۔پہلے کہا جاتا تھا ’’خاتون گھر کی عزت ہے‘‘ مگر آج بہار کی سیاست کہہ رہی ہے ’’عورت سماج کی طاقت ہے۔اور یہی آج کی کھلی حقیقت بھی ہے۔
*************************

