بہار کے نوجوان، ہجرت اور امید کی نئی کرن

تاثیر 5 اکتوبر ۲۰۲۵:- ایس -ایم- حسن

وزیر اعظم نریندر مودی نے 4 اکتوبر، 2025 کو نئی دہلی کے وگیان بھون میں آئی ٹی آئی پاس طلبہ کے ایک عظیم الشان تقسیم اسناد تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ،جن منصوبوں کا اعلان کیا، ان کا بنیادی مقصد بہار جیسی پس ماندہ ریاستوں سے نوجوانوں کی مسلسل ہجرت کو روکنا ہے۔ اس موقع پر انھوں نے بہار میں ’’جن نائک کرپوری ٹھاکر اسکل یونیورسٹی‘‘ کا ورچوئل افتتاح کرنے کے ساتھ ہی 62 ہزار کروڑ روپے کے مختلف منصوبوں کا اعلان کیا۔ ان منصوبوں میں ’’پی ایم سیتو‘‘ اور 1200 نئے اسکل لیب کی تشکیل جیسے اقدامات شامل ہیں۔ ان اعلانات کے ساتھ ہی مودی حکومت نے بظاہر ایک ایسے مسئلے کو براہِ راست مخاطب کرنے کی کوشش کی ہے، جو برسوں سے بہار کی سیاست اور سماج کے لئے دردِ سر بنا ہوا ہے۔ یعنی روزگار کے لئے ریاست سے بڑے پیمانے پر نوجوانوں کی ہونے والی ہجرت۔
یہ حقیقت ہے کہ بہار کے لاکھوں نوجوان بہتر تعلیم، تربیت اور روزگار کے مواقع کی تلاش میں ممبئی، دہلی، پنجاب، گجرات اور جنوبی ہند کی ریاستوں کی طرف ہجرت کر جاتے ہیں۔ ان میں سے بیشتر نچلے طبقے یا پسماندہ علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ان کے لئے یہ ہجرت زندگی اور موت کا مسئلہ بنی رہتی ہے۔ یہ المیہ صرف اقتصادی نہیں بلکہ سماجی اور جذباتی بھی ہے، کیونکہ اس کے نتیجے میں بہار کا دیہی ڈھانچہ کمزور ہوا ہے، گھروں میں بوڑھے والدین تنہا رہ گئے ہیں اور گاؤں کی معیشت کا توازن بگڑ گیا ہے۔حالانکہ مرکزی حکومت کا دعویٰ ہے کہ نئی اسکیمیں نوجوانوں کو اپنے ہی علاقے میں روزگار دلانے میں مدد کریں گی۔ ’’پی ایم سیتو‘‘ کے تحت آئی ٹی آئی اداروں کو صنعتوں کے ساتھ جوڑنے اور تربیت کو عملی میدان سے قریب تر بنانے کی بات یقیناً ایک مثبت پہل ہے۔ اسی طرح ’’ انٹرسٹ فری اسٹوڈنٹ کریڈٹ کارڈ‘‘ منصوبہ اور بڑھائی گئی اسکالرشپ اسکیمیں بھی نوجوانوں کے اعتماد کو مضبوط کر سکتی ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا صرف اعلانات سے ہجرت جیسے دیرینہ مسئلے کا خاتمہ ممکن ہے؟
بہار کی ترقی کی رفتار ہمیشہ انفراسٹرکچر کی کمی، صنعتی پس ماندگی اور سیاسی غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے متاثر رہی ہے۔ یہاں تعلیم یافتہ نوجوانوں کے لئے مناسب صنعتیں، سرمایہ کاری اور کاروباری ماحول کا فقدان رہا ہے۔ اگر ان اسکیموں کو زمینی سطح پر ایمانداری سے نافذ کیا جائے، تو یہ ایک بڑی تبدیلی کی شروعات ہو سکتی ہے۔ لیکن اگر یہ اقدامات بھی محض انتخابی وعدوں کی طرح ثابت ہوئے، تو نوجوانوں کا مایوسی اور بداعتمادی کا دائرہ مزید وسیع ہو جائے گا۔
وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں وزیر اعلیٰ نتیش کمار کے اقدامات کی تعریف بھی کی، جو مرکز و ریاست کے درمیان تعاون کی علامت ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہجرت کے مسئلے کا حل صرف حکومتوں کی نیت سے نہیں، بلکہ جامع پالیسی، صنعتی سرمایہ کاری، شفاف تربیتی نظام اور مقامی سطح پر روزگار کے مواقع بڑھانے سے ممکن ہوگا۔ بہار میں اگر چھوٹی اور درمیانی صنعتوں کے لئے سازگار ماحول پیدا کیا جائے، زرعی شعبے کو ٹیکنالوجی سے جوڑا جائے، اور تعلیم کو بازار کی ضروریات کے مطابق ڈھالا جائے، تو نوجوانوں کو اپنے ہی وطن میں بہتر مستقبل نظر آ سکتا ہے۔
ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ حکومتیں صرف شہر یا صنعتی علاقوں تک محدود نہ رہیں بلکہ گاؤں اور ضلع سطح پر بھی چھوٹی صنعتی اکائیاں، اسٹارٹ اپ مراکز، اور دستکاری و ہنرمندی کے مراکز قائم کرے۔ بہار کے نوجوانوں میں بے پناہ تخلیقی صلاحیت ہے۔ اگر انہیں مالی امداد، جدید مشینری، تربیت یافتہ استاد اور مارکیٹ تک رسائی فراہم کر دی جائے تو وہ نہ صرف اپنے لیے روزگار پیدا کر سکتے ہیں بلکہ دوسروں کے لئے بھی مواقع پیدا کر سکتے ہیں۔ دیہی صنعتوں، فوڈ پراسیسنگ، دستکاری، کپڑا سازی، اور انفارمیشن ٹیکنالوجی جیسے شعبے بہار کے لیے نئے امکانات کے دروازے کھول سکتے ہیں۔
اس کے ساتھ ہی یہ بھی یاد رکھا جائے کہ ہجرت کے خاتمے کا مطلب صرف روزگار فراہم کرنا نہیں بلکہ ایک ایسا سماجی و اقتصادی ماحول بنانا ہے، جہاں نوجوانوں کو اپنی محنت کا مناسب صلہ، عزت، اور ترقی کے مساوی مواقع مل سکیں۔ اگر بہار کے تعلیمی ادارے جدید نصاب، سائنسی تحقیق، اور انٹرن شپ کے بہتر مواقع فراہم کریں، تو نوجوانوں کا رجحان خود بخود ریاست کے اندر ہی روزگار کی سمت بڑھنے لگے گا۔چنانچہ بہار کی اصل ترقی اسی دن ممکن ہوگی، جب یہاں کا نوجوان ’’روزگار کے لئے گھر چھوڑنے‘‘ کے بجائے ’’گھر میں رہ کر روزگار پیدا کرنے‘‘ کے قابل بنے۔ وزیر اعظم کے حالیہ اعلانات امید کی ایک کرن ضرور ہیں، مگر ان کے اثرات اسی وقت دکھائی دیں گے جب وعدے عمل کی صورت اختیار کریں۔ بہار کے نوجوان اب یقین کے ساتھ یہ پوچھنے کے حق دار ہیں کہ کیا واقعی وہ وقت آ گیا ہے جب ان کی صلاحیتیں ان کے اپنے ہی صوبے کی ترقی کا سرمایہ بنیں گی؟
***********************