تاثیر 10 اکتوبر ۲۰۲۵:- ایس -ایم- حسن
دو برس کی ہولناک تباہی، ہزاروں لاشوں، ملبے میں دفن خوابوں اور دنیا بھر کی بے حسی کے بعد، بالآخر غزہ میں جنگ بندی اور قیدیوں کی رہائی کا معاہدہ ایک نئی اُمید کے طور پر سامنے آیا ہے۔ مصر کے ساحلی شہر شرم الشیخ میں 8 اکتوبر، 2025 کو انجام پذیر یہ معاہدہ بظاہر ایک انسانی سانحے کے اختتام کی نوید ہے، مگر اس کے اندر کئی سیاسی، سفارتی اور اخلاقی سوال پوشیدہ ہیں۔یہ معاہدہ بلاشبہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جارحانہ سفارت کاری کا نتیجہ ہے۔ ٹرمپ نے نہ صرف حماس بلکہ اسرائیل پر بھی دباؤ ڈالا، اور خود کو ’’امن کے علمبردار‘‘ کے طور پر پیش کیا۔ وہ اس کامیابی کو اپنی عالمی پہچان بنانے کے لئے استعمال کرنا چاہتے ہیں ، حتیٰ کہ نوبیل امن انعام کے خواب بھی دیکھ رہے ہیں۔ اُن کے لئے یہ سفارتی پیش رفت ایک ’’سیاسی سرمایہ‘‘ ہو سکتی ہے، لیکن فلسطینی عوام کے لئے یہ محض ایک مختصر وقفۂ راحت کے علاوہ کچھ بھی نہیں جیسی لگتی ہے۔
اس جنگ کی ابتدا 7 اکتوبر، 2023 کو ہوئی تھی ،جب حماس کے حملے میں 1200 اسرائیلی ہلاک ہوئے تھے اور 251 کو یرغمال بنایا گیا تھا۔ اسرائیل نے اس کے جواب میں غزہ پر آگ اور لوہے کی بارش برسائی تھی۔ان دو برسوں میں67 ہزار فلسطینی، جن میں 18 ہزار بچے شامل ہیں، مارے گئے ہیں۔ یہ اعداد و شمار نہ صرف ایک المناک حقیقت ہیں بلکہ عالمی ضمیر کے زوال کا ثبوت بھی ہیں۔ تباہ شدہ غزہ میں آج بھی اسپتال ملبہ بنے ہوئے ہیں، اسکول قبریں، اور انسانی زندگی ایک سوالیہ نشان۔معاہدے کے تحت اسرائیل سینکڑوں فلسطینی قیدیوں کو رہا کرے گا، کچھ علاقوں سے فوجی انخلا کرے گا، اور انسانی امداد کے راستے کھولے گا۔ دوسری طرف حماس باقی ماندہ اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی پر آمادہ ہو گئی ہے۔ یہ سب بظاہر امن کی جانب بڑھتا ہوا ایک خوشگوار قدم جیسا نظر آ رہا ہے، مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ امن واقعی دیرپا ثابت ہوگا؟
تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں کوئی معاہدہ مستقل نہیں رہاہے۔ماضی میں بھی جنگ بندی کے اعلانات ہوئے، مگر چند ماہ بعد ہی فضاؤں میں بموں کی گھن گرج سنائی دینے لگی۔ خود اس سال مارچ میں اسرائیل نے جنگ بندی توڑتے ہوئے شدید فضائی حملے کیے تھے۔ ایسے میں حماس کی جانب سے ’’لڑائی دوبارہ شروع نہ کرنے کی ضمانت‘‘ کا مطالبہ بے جا نہیں ہے۔دوسری جانب اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو کی داخلی سیاست بھی اس امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ ان کی حکومت انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں کے سہارے کھڑی ہے، جو ’’مکمل فتح‘‘ کے بغیر کسی بھی سمجھوتے کو غداری سمجھتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نتن یاہو ایک طرف امن کی میز پر بیٹھنے پر مجبور ہیں اور دوسری طرف جنگ کے وعدے نبھانے کے لئے سیاسی مجبوریوں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ ان کےلئے یہ معاہدہ ’فتح کا بیانیہ‘ قائم رکھنے کا ایک ذریعہ ہے، تاکہ وہ عوام کے غم و غصے کو وقتی طور پر قابو میں رکھ سکیں۔
اِدھرحماس بھی کمزور پوزیشن میں ہے۔ جنگ نے اس کے عسکری ڈھانچے کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ یرغمالیوں کی رہائی کے بعد اس کے پاس مذاکرات کی طاقت بھی محدود ہو جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اس بات پر اصرار کر رہی ہے کہ اسرائیل دوبارہ حملہ نہ کرے۔ تاہم، یہ مطالبہ اسرائیلی سیاسی حلقوں کے لئے ناقابلِ قبول ہے۔اس معاہدے میں عرب ممالک کا کردارخاص طور پر اہم ہے۔ مصر، قطر اور ترکی نے ثالثی میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ یہ ممالک سمجھتے ہیں کہ اگر غزہ میں امن نہ ہوا تو پورے خطے میں شدت پسندی اور بے اعتمادی مزید بڑھے گی۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ایک متوازن فارمولے پر اصرار کیا ہے،جس میں قیدیوں کی رہائی، انسانی امداد، اور تدریجی انخلا جیسے نکات شامل ہیں۔تاہم، امن کے اس منظرنامے کے پیچھے ’’سیاسی مفادات‘‘کا جال بھی اتنا ہی پیچیدہ ہے۔ ٹرمپ کا اصل مقصد عالمی سیاست میں اپنی ’’امن ساز‘‘ شناخت کو مضبوط کرنا ہے۔ نوبیل پرائز کی خواہش نے مذاکرات کی رفتار بڑھائی ضرور ہے، مگر اس نے معاہدے کی پائیداری پر سوالیہ نشان بھی لگا دیا ہے۔ اگر امن کا ہدف سیاسی مفاد سے جڑا ہو تو وہ اکثر وقتی ثابت ہوتا ہے۔
غزہ میں جشن منانے والے فلسطینیوں کے چہروں پر مسکراہٹیں ہیں، مگر آنکھوں میں خدشات بھی۔ وہ جانتے ہیں کہ یہ امن کتنا نازک ہے۔ ان کے لئے یہ کوئی نئی صبح نہیں، بلکہ ایک تھکی ہوئی شام میں اُمید کی ایک جھلک ہے۔ تل ابیب میں بھی لوگ یرغمالیوں کی رہائی پر خوش ہیں، مگر جنگ کے سائے اب بھی ان کے ذہنوں پر چھائے ہیں۔چنانچہ یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ غزہ کی جنگ واقعی ختم ہو گئی ہے۔ امن کے اس نئے باب کی کامیابی اسی وقت ممکن ہے، جب اسرائیل طاقت کی زبان چھوڑ کر انصاف کی راہ اپنائے، اور عالمی برادری صرف ثالث نہیں بلکہ ’’ضمیر کی آواز‘‘ بنے۔ بصورتِ دیگر، یہ معاہدہ بھی ماضی کی طرح تاریخ کے ملبے میں دفن ہو جائے گا، اور غزہ کے بچے پھر کسی نئے حملے کے دوران ملبے سے اپنے کھلونوں کو ڈھونڈتے نظر آئیں گے۔
*****************

