تاثیر 25 اکتوبر ۲۰۲۵:- ایس -ایم- حسن
بہار اسمبلی انتخابات 2025 کی مہم نے ادھر چند دنوں کے درمیان سیاسی دھوپ چھاؤں کی ایک عجیب و غریب تصویر پیش کی ہے۔ مہا گٹھ بندھن کی داخلی سیاست اور اس کی ناکام حکمت عملی نے نہ صرف اتحاد کی کمزوریوں کو سامنے لا دیا ہے، بلکہ آبادی کے اعتبار سے مسلم آبادی کی سیاسی نمائندگی کے سوال کو بھی مرکز میں لا کھڑا کیا ہے۔ بہار کی 17-18 فیصد مسلم آبادی کے باوجود مہا گٹھ بندھن کی جانب سے مسلم چہرے کو وزیر نائب وزیر اعلیٰ کے طور پر پیش نہ کرنا ابھی موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ اس تناظر میں، یہ انتخابات محض اقتدار کی لڑائی نہیں بلکہ سماجی انصاف اور سیاست میں مسلمانوں کی خاطرخواہ شمولیت پر گفت و شنید کا پلیٹ فارم بن چکے ہیں۔
کانگریس نے اس بار ایک نئی حکمت عملی کے ساتھ میدان میں اترنے کی کوشش کی تھی۔ اس کا آغاز’’نوکری دو ، ہجرت روکو‘‘ مہم سے کیا گیا تھا۔اس کی منصوبہ بندی صداقت آشرم میں ہوئی تھی۔ اس مہم کا مقصد بہار کے کلیدی مسائل،بے روزگاری اور ہجرت، کے ساتھ ساتھ مسلم، دلت اور سورن ووٹوں کو اپنی طرف متوجہ کرنا تھا۔ ابتدائی مرحلے میںکانگریس نے 140 سیٹیں نشان زد کی تھیں اور آر جے ڈی سربراہ لالو یادو سے بغیر مشاورت کے 71 سیٹوں کی فہرست فائنل کر ان کے پاس بھیج دی گئی۔ ان سیٹوں میں آر جے ڈی کی کچھ موجودہ نشستیں بھی شامل تھیں۔بظاہر یہ اقدام آر جے ڈی کی ’’بی ٹیم‘‘ کے لیبل سے نجات کی کوشش تھی، لیکن مہا گٹھ بندھن کی مشترکہ میٹنگ میں سیٹوں کی تعداد گھٹ کر 61 تک محدود ہو گئی۔ کانگریس نے کئی ایسی نشستیں چھوڑ دیں جہاں وہ مضبوط تھی، جیسے مہاراج گنج اور جمالپور، جبکہ بہار شریف اور بن منکھی جیسی چند نئی نشستیں اسے ملیں۔ 2020 کے مقابلے میں، جہاں کانگریس نے 70 سیٹوں پر اپنے امیدوار اتارے تھے، مگر اسٹرائک ریٹ بہت ہی کمزور رہا تھا، اس بار کوئی نئی نشست نہ ملنا اس کی کمزور کارکردگی کے ساتھ اس کی انتخابی حکمت عملی کو عیاں کرتا ہے۔راہل گاندھی کی ’’ووٹر ادھیکار یاتر‘‘ بھی ووٹ بینک کی تقسیم،مسلمانوں کا آر جے ڈی، سورن کا بی جے پی اور دلت کا چراغ پاسوان اور دیگر کے ساتھ،کے سامنے با اثر ثابت نہیں ہو سکی ۔نتیجتاً، آخری لمحات میںسابق وزیر اعلیٰ اشوک گہلوٹ کو لالو کے فارمولے پر واپسی کے لئے پٹنہ بلایا گیا۔ ظاہر ہے اس قدم نے کانگریس کی ’’ایکلا چلو‘‘کی امیدوں پر پوری طرح سے پانی پھیردیا۔
دوسری طرف، مہا گٹھ بندھن کا تیجسوی یادو کو وزیر اعلیٰ اور مُکیش ساہنی ، جن کا تعلق ملاح برادری سے ہے اور بہار میں اس برادری کی آبادی 2.6 کے آس پاس ہے ، کو نائب وزیر اعلیٰ کا چہرہ بنانا مسلم ووٹروں کے لئے مایوسی کا باعث بن گیا۔چراغ پاسوان نے اسے ’’بندھوا ووٹ بینک ‘‘ کا طعنہ دیتے ہوئے کہہ دیا کہ 2005 میں ان کے والد رام ولاس پاسوان نے مسلم وزیر اعلیٰ بنائے جانے کےلئے پارٹی قربان کی تھی، مگر آر جے ڈی نے آخر آخر تک ان کی تجویز کی حمایت نہیں کی۔ یہاں تک کے دوبارہ اسمبلی انتخابات کی نوبت آگئی۔ آج بھی آر جے ڈی کو بطور نائب وزیر اعلیٰ مسلم چہرہ پسند نہیں ہے۔ ویسے چراغ پاسوان نے اپنے حصے میں آئی 29 سیٹو ں میں سے صرف کِشَن گنج کی بہادُری گنج سیٹ سے محمد کلیم الدین کو ٹکٹ دیا ہے، لیکن ان کی کامیابی مقامی ووٹرز کی توجہ اور اتحادی حمایت پر منحصر ہے۔حالانکہ 2020 میں اس سیٹ کو اے آئی ایم آئی ایم نے کانگریس سے چھینا تھا۔آج بھی یہاں کی لڑائی سہ رخی ہے۔ ایسے میں این ڈی اے (لوجپا)کے کھاتے میں یہ سیٹ آئے گی یا نہیں، اس سلسلے میں ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔
اسی چناوی سیاست کی گہما گہمی کے درمیان تیجسوی یادو کی ایک تصویر، جس میں وہ اور مُکیش ساہنی بڑے خوشگوار موڈ میں نظر آ رہے ہیں اور ایک مسلم نما مایوس شخص بغل میں دری بچھاتا ہوا دکھائی دے رہا ہے، بڑی تیزی سے وائرل ہو رہی ہے۔اس تصویر پر سیکڑوں کمنٹس آئے ہیں،جن میں بیشتر اے آئی ایم آئی ایم کے شوکت علی کے کمنٹس سے ملتے جلتے ہیں۔شوکت علی نے طنز کیا ہے کہ ’’18 فیصد والا دری بچھاون وزیر، 2 فیصد والا نائب وزیر اعلیٰ ‘‘۔ظاہر ہے یہ تنقید مہا گٹھ بندھن کی اس حکمت عملی کی جانب ایک ایسا اشارہ ہے، جو آبادی کے حساب سے سیاست میں مسلمانوں کی حصہ داری میں بے ایمانی کو انڈر لائن کرتا ہے۔
بہر حال بہار کی سیاست میں مسلمانوں کی خاطر خواہ نمائندگی کا فقدان مہا گٹھ بندھن کی بنیادی کمزوری ہے۔ 17-18 فیصد مسلم ووٹ، جو روایتی طور پر آر جے ڈی کے ساتھ رہے ہیں ، موجودہ حالات میں کس حد تک مہاگٹھ بندھن کے ساتھ رہیں گے، اس سلسلے میں پورے اعتماد کے ساتھ ابھی کچھ کہنا مشکل ہے۔مگر حالات بتا رہے ہیں کہ اگر مہا گٹھ بندھن نے وقت رہتے اس بحران کو دور کرنے کی کوشش نہیں کی تو بہار کی حالیہ چناوی سیاست سماجی انصاف کی بجائے ووٹ بینک کی کھینچا تانی کا شکار بھی ہو سکتی ہے۔

