تاثیر 28 اکتوبر ۲۰۲۵:- ایس -ایم- حسن
ملک میں اوقاف کے تحفظ کا مسئلہ ایک نازک اور فیصلہ کن موڑ پر کھڑا ہے۔ وقف (ترمیمی) ایکٹ، 2025 کے نفاذ کے بعد تمام اوقاف کی تفصیلات کو ’’اُمید‘‘پورٹل :’’umeed.minorityaffairs.gov.in‘‘ پر 5 دسمبر، 2025 سے پہلے اپ لوڈ کرنا لازمی ہے ۔ یہ بظاہر ایک تکنیکی یا انتظامی عمل دکھائی دیتا ہے، مگر دراصل یہ اقلیتی مذہبی اداروں کے وجود اور شناخت سے جڑا ہوا ایک سنگین قانونی مرحلہ ہے۔چنانچہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے امور اوقاف سے بلا واسطہ یا بالواسطہ طور پر وابستہ، ملک کے تمام مسلمانوں سے اپیل کی ہے کہ وہ فوری طور پر اپنے دائرۂ اثر میں آنے واے اوقاف کا اندراج مکمل کریں۔ بورڈ کی جانب سے یہ واضح کیا گیا ہے کہ اگرچہ وقف ترمیمی قانون کو عدالتِ عظمیٰ میں چیلنج کیا گیا ہے اور بعض دفعات پر عبوری راحت بھی ملی ہے، لیکن دفعہ ’ 3بی ‘کے تحت تفصیلات اپ لوڈ کرنے کے عمل پر کوئی روک نہیں لگائی گئی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مقررہ مدت کے بعد اگر کسی وقف کی تفصیلات مذکورہ پورٹل پر درج نہ ہوئیں تو اس کے ’’رجسٹرڈ‘‘ ہونے کی حیثیت خطرے میں پڑ سکتی ہے، اور متعلقہ ادارہ مستقبل میں اپنے اوقاف پر قانونی حق ثابت کرنے میں کمزور پڑ سکتا ہے۔
یہ نکتہ قابلِ غور ہے کہ ’’اُمید پورٹل‘‘ ایک ڈیجیٹل شناختی نظام ہے، جو آئندہ ہر وقف کے وجود کا بنیادی حوالہ بن جائے گا۔ اگر اوقاف کے اعداد و شمار اور دستاویزات مکمل طور پر اپ لوڈ نہ ہوں گی تو انہیں ’’غیر مصدقہ‘‘ یا ’’غیر رجسٹرڈ‘‘ تسلیم کئے جانے کا خطرہ ہمیشہ بنا رہے گا۔ ظاہر ہے اس کے اثرات دور رس ہوں گے، کیونکہ اسی بنیاد پر مستقبل میں زمین، عمارت یا اوقاف کی جائداد کے تحفظ اور ان پر دخل قبضے سے متعلق تنازعات طے کیے جائیں گے۔یہ بات سب کو معلوم ہے کہ ترمیم شدہ وقف قانون کے نفاذ کے بعد سے ہی وقف بورڈ کے اختیارات ہو گئے ہیں۔ اب اگر متولیان یا متعلقہ ادارے اندراج کے عمل میں کوتاہی برتیں گے تو وہ اپنی قانونی حیثیت خود کمزور کر لیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم پرسنل لا بورڈ کی حالیہ اپیل کو ایک انتباہ کے طور پر لینا چاہیے۔ یہ محض ایک انتظامی ہدایت نہیں بلکہ ایک دینی، ملی اور آئینی فریضے کی یاد دہانی ہے۔
ملک کے مختلف حصوں میں ہزاروں مساجد، مدارس، قبرستان اور درگاہیں ایسی ہیں، جن کے پاس مکمل دستاویزی ثبوت یا جدید ڈیجیٹل ڈکومنٹس موجود نہیں ہے۔ بہت سے متولیان کو نہ کمپیوٹر کا علم ہے، نہ انہیں معلوم ہے کہ ’’اُمید‘‘ پورٹل پر متعلقہ تفصیلات اپلوڈکرنے کا کیا طریقۂ کار ہے۔ ایسے میں اگر مقامی سطح پر فوری طور پر ’’ ہیلپ ڈسکس ‘‘ قائم نہ کیے گئے اور اپلوڈنگ کا باقاعدہ مانیٹرنگ سسٹم ڈیولپ نہیں کیا جائے گاتو اوقاف کی ایک بڑی تعداد اندراج سے محروم رہ جائے گی۔ چنانچہ ہر ریاست کے وقف بورڈ اور ہر ضلع کی اوقاف کمیٹی کے ذمہ داران کو چاہیے کہ وہ ٹیکنیکل ماہرین، رضاکاروں اور طلبہ کی مدد سے یہ کام انجام دیں تاکہ کوئی وقف اندراج سے باہر نہ رہ جائے۔
یہ بات بھی قابلِ توجہ ہے کہ نئے قانون کے مطابق وہی وقف ’’رجسٹرڈ‘‘ مانا جائے گا ،جس کی تفصیلات پورٹل پر اپ لوڈ کی گئی ہوں گی۔ اگر کسی کو اپ لوڈنگ کے دوران کوئی دشواری ہو یا معلومات ادھوری ہوں تو لازمی طور پر متعلقہ وقف بورڈ کو اس کی اطلاع تحریری طور پر دینی چاہیے تاکہ قانونی ثبوت محفوظ رہ سکے۔ ورنہ بعد میں یہ دعویٰ کرنا کہ اوقاف کا اندراج نہ ہونے کی وجہ کوئی تکنیکی خرابی تھی، قانونی طور پر کارگر ثابت نہیں ہوگا۔قانونی پہلو کے ساتھ ساتھ اس معاملے کا ایک اخلاقی اور ملی پہلو بھی ہے۔ وقف ایک امانت ہے، جو صرف کسی ادارے یا شخص کی ملکیت نہیں بلکہ پوری ملت کی اجتماعی میراث ہے۔ اگر ہم نے اس امانت کے تحفظ میں شعوری یا لا شعوری طور پر غفلت برتی تو یہ نہ صرف قانونی خسارہ ہوگا بلکہ دینی ذمہ داری کی ادائیگی میں کوتاہی بھی شمار ہوگی۔
یہ وقت دراصل قومی سطح پر اوقاف کے تحفظ کی بیداری مہم کا متقاضی ہے۔ ملک کی اکثرملی تنظیمیں، دینی ادارے، ائمہ مساجد اور سماجی کارکنان اگر متحد ہو جائیں تو یہ مرحلہ آسانی سے پورا کیا جا سکتا ہے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ جمعہ کے خطبات میں، مدارس و کالجوں کے اجتماعات میں، اور سوشل میڈیا کے ذریعے وسیع پیمانے پر آگاہی مہم چلائی جائے۔دھیان رہے وقت تیزی سے گزر رہا ہے، اور ہر گزرتا دن اوقاف کے تحفظ کے لیے قیمتی ہے۔ 5 دسمبر 2025 کی آخری تاریخ صرف ایک سرکاری ڈیڈ لائن نہیں بلکہ ایک ایسی گھڑی ہے جو ملت کے اجتماعی نظم و ضبط، بیداری اور اتحاد کا امتحان لے رہی ہے۔ آج کے بعد سے صرف 37 دن رہ گئے ہیں۔وقت رہتے اگر ہم نے دانشمندی ،اتحاد اور پوری منصوبہ بندی کے ساتھ اپلوڈنگ مکمل کر لی تو سمجھ لیا جائے کہ ’’اُمید‘‘ واقعی اُمید کی علامت بن جائے گی۔ بصورت دیگر معمولی سے بے توجہی ہمارے آبا و اجداد کی امانت کی تباہی کا سبب بن سکتی ہے۔اور اس تباہی کے مجرموں کی فہرست میں کہیں نہ کہیں ہمارا نام بھی شامل ہوگا۔
***********************

