تاثیر 22 اکتوبر ۲۰۲۵:- ایس -ایم- حسن
روشنیوں کا تہوار دیوالی ایک طرف جہاں خوشیوں، میل جول اور روشنی کی علامت سمجھا جاتا ہے، وہیں دوسری جانب ہر سال یہ تہوار بھارت کی فضا میں زہریلے دھوئیں اور سانس گھونٹ دینے والے دھند کے بادلوں کے ساتھ ایک المناک یاد دہانی بھی بن کر ابھرتا ہے۔ اس برس بھی کہانی کچھ مختلف نہیں رہی۔ دہلی، ہریانہ، پنجاب، اتر پردیش، بہار، راجستھان اور مدھیہ پردیش کے بیشتر شہروں کی ہوا دیوالی کے فوراً بعد ’’انتہائی خراب‘‘ یا ’’سنگین‘‘ زمرے میں داخل ہو گئی ۔ دہلی کاایئر کوالٹی انڈیکس( اے کیو آئی) 335رہا، تو ہریانہ کے جند اور دھاروواڑا میں یہ 420 سے اوپر پہنچ گیا ۔ راجستھان کے گنگا نگر میں صورتحال اور بھی تشویشناک رہی، جہاں فضائی آلودگی کا انڈیکس 466 درج کیا گیا، جو انسانی صحت کے لئے خطرناک حد سے کہیں زیادہ ہے۔
ماحولیات کے ماہرین کے مطابق ہر سال دیوالی کے بعد ملک کی فضائی آلودگی میں اوسطاً 15 سے 20 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا جاتا ہے۔ اگرچہ حکومت اور عدالتوں نے کئی بار پٹاخوں پر پابندی لگائی، مگر حقیقت یہ ہے کہ مسئلہ صرف پٹاخوں تک محدود نہیں۔ گاڑیوں کا دھواں، تعمیراتی سرگرمیاں، صنعتی اخراج، اور سب سے بڑھ کر پنجاب، ہریانہ اور مغربی اتر پردیش میں فصلوں کی باقیات جلانے کی روایت، یہ سب مل کر فضا کو زہریلا بنا دیتے ہیں۔ آئی ٹی آئی کانپور اور دیگر تحقیقی اداروں کی رپورٹس کے مطابق دہلی کی آلودگی میںٹریفک کا حصہ 39 فیصد تک، سڑک اور تعمیراتی دھول کا 60 فیصد تک، اور پرالی جلانے کا 20 فیصد تک حصہ ہوتا ہے۔ پٹاخے اس میں محض وقتی اضافی زہر گھولتے ہیں۔
گزشتہ دس برسوں کے اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ دیوالی والے دن اور اس کے اگلے دن کے دوران دہلی کا ایئر کوالٹی انڈیکس اکثر خطرناک حدوں کو چھوتا رہا ہے۔ 2021 میں اے کیو آئی462 تک پہنچ گیا تھا، جب کہ 2024 میں یہ 362 رہا۔ ان اعداد و شمار سے صاف ظاہر ہے کہ محض عارضی پابندیوں اور مہمات سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ دیوالی کے موقع پر حکومتیں وقتی اقدامات ضرور کرتی ہیں، مگر مستقل پالیسیوں اور زمینی سطح پر ان پر عمل درآمد کا فقدان ہے۔پچھلے چند برسوں سےگرین پٹاخوں کو امید کی ایک کرن کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے، کیونکہ ان سے روایتی پٹاخوں کے مقابلے میں 30 فیصد کم اخراج ہوتا ہے، مگر ان کی قیمت اور محدود دستیابی نے ان کے استعمال کو محدود کر دیا ہے۔دوسری طرف عوامی بیداری کی کمی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ خوشی کے لمحوں میں ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ہماری ایک رات کی تفریح ہزاروں لوگوں کے لئے سانس لینے کا عذاب بن جاتی ہے۔ ڈاکٹرز نے بزرگوں، بچوں اور سانس یا دل کے مریضوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ ان دنوں ماسک پہنیں، بھاپ لیں اور غیر ضروری طور پر گھر سے باہر نکلنے سے گریز کریں۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا شہری اپنی ذمہ داری نبھا رہے ہیں؟ یا پھر ہم اجتماعی طور پر اس زہریلی ہوا کے عادی ہو چکے ہیں؟
وقت آ گیا ہے کہ تہوار کی خوشیوں کو ماحولیات کی ذمہ داری کے ساتھ جوڑا جائے۔ ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ روشنیوں کی اصل معنویت تبھی برقرار رہ سکتی ہے جب ہمارے اردگرد کی فضا صاف، سانس لینے کے لائق اور زندگی بخش ہو۔ حکومت کو چاہیے کہ صرف پٹاخوں پر نہیں، بلکہ گاڑیوں کے اخراج، تعمیراتی سرگرمیوں، صنعتی زہریلے دھوئیں اور پرالی جلانے جیسے بڑے عوامل پر بھی سخت نگرانی کرے۔ ساتھ ہی اسکولوں، میڈیا اور مذہبی اداروں کے ذریعے بھی عوام میں ماحول دوست طرزِ زندگی کے تئیں عوامی بیداری پیدا کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جانی چاہئے۔
بلاشبہ دیوالی مشترکہ خوشیوں اور باہمی محبت کے اظہار کا بہت بڑا تہوار ہے، مگر جب انھی خوشیوں کی قیمت سانسوں کے زہر سے ادا کی جانے لگے تو یہ تہوار اپنی معنویت کھو دیتا ہے۔ چنانچہ اِس دیوالی کے بعد بھارت کو ایک سنجیدہ اجتماعی مکالمے کی ضرورت ہے، ایسا مکالمہ جو پالیسی، سائنس، سماج اور عقیدے کو یکجا کر کے سانس لینے کے حق کو انسانی تہواروں کے ساتھ ہم آہنگ کر سکے۔ روشنیوں کے اس جشن کو تبھی حقیقی معنوں میں منایا جا سکتا ہے، جب اسے دھوئیں کے بادلوں سے پاک بناکر انسانی زندگی کے تمامتر تاریک گوشوں کو یکساں طور پر منور کر نے میں معاشرے کا ہر فرد اپنا کردار پوری ایمانداری اور دیانت داری کے ساتھ ادا کر نے لگے گا۔
**************************

