طرزِ فکر، جو بھارت کے تنوع اور ہم آہنگی کی بنیاد ہے

تاثیر 1 نومبر ۲۰۲۵:- ایس -ایم- حسن

گزشتہ دنوں اتر پردیش کے ضلع علی گڑھ میں جو واقعہ پیش آیا، اس نے ایک بار پھر یہ ثابت کر دیا کہ ہمارے ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو سب سے بڑا خطرہ بیرونی دشمنوں سے نہیں، بلکہ اندرونی سیاسی خود غرضی اور سماجی نفرت کے بیوپاریوں سے ہے۔ریاست کے لودھا علاقے کے دوگاؤں بھگوان پور اور بلاک گڑھ کی مندروں کی دیواروں پر ’’آئی لو محمد‘‘ لکھے جانے کے بعد جب ماحول بگڑنے لگا، تو پورے علاقے میں کشیدگی پھیل گئی۔ چند ہی گھنٹوں میں اشتعال انگیز نعرے، مظاہرے، اور سوشل میڈیا پر بھڑکاؤ بیانات نے اس چھوٹی سی واردات کو ایک بڑے مذہبی مسئلے کی شکل دے دی۔ مگر پولیس کی تیز اور غیر جانبدار تفتیش نے اس ’’سازش‘‘ کی تہہ کھول کر رکھ دی۔تحقیقات سے معلوم ہوا کہ یہ کارستانی کسی مذہبی جوش یا فرقہ وارانہ جذبے کے تحت نہیں کی گئی تھی بلکہ محض زمین کے تنازعے میں اپنے مسلم مخالفین کو جھوٹے مقدمے میں پھنسانے کی ناپاک کوشش تھی۔ پولیس نے اس سلسلے میں دلِیپ کمار، آکاش، ابھیشیک سارسوت اور نشانت کمار کو گرفتار کیا ہے۔ یہ چاروں نوجوان اپنے مخالفین کے خلاف انتقامی جذبے میں اتنے اندھے ہوگئےتھے کہ انہوں نے نہ صرف معاشرتی امن کو خطرے میں ڈالا بلکہ پورے علاقے کو فرقہ وارانہ تصادم کی دہلیز پر پہنچا دیا۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ شروع میں اسی مقدمے میں چند بے گناہ مسلم نوجوانوں، مثلاً مولوی مستقیم، گل محمد، سلیمان، سونو، اللہ بخش، حسن، حامد اور یوسف کو گرفتار کیا گیا تھا۔ اگر پولیس نے گہرائی سے جانچ نہ کی ہوتی توعلی گڑھ ایک بے بنیاد قصے پر یقین کر چکا ہوتااور یہ معصوم نوجوان ناکردہ گناہوں کے سبب آج جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہوتے۔ لیکن جب دیوار پر انگریزی میں لکھے’’آئی لو محمد‘‘کے اسپیلنگ میں غلطی پکڑی گئی اور سی سی ٹی وی فوٹیج، موبائل کال ریکارڈ اور مقامی انٹیلی جنس کی مدد سے اصل سازش سامنے آئی تو سیاست کا مکروہ چہرہ بے نقاب ہو گیا۔یہ پہلا موقع نہیں ہے جب مذہبی جذبات کو مجروح کرکے سیاسی یا ذاتی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی گئی ہو۔ حال ہی میں آگرہ میں ’’بھارت ہندو مہا سبھا‘‘ کے چار رہنماؤں نے اپنے ہی مخالف دھڑے کو نیچا دکھانے کے لئے ایک ایمان فروش مسلمان کو پیسے دے کر گائے ذبح کرائی، تاکہ مسلمانوں کو بدنام کیا جا سکے۔ اسی طرح گزشتہ ماہ کانپور اور بریلی میں ’’آئی لو محمد‘‘ کے نعرے کو لے کر پیدا کی گئی مصنوعی کشیدگی نے بھی یہ واضح کر دیا ہے کہ ریاست میں کچھ حلقے مذہب کے نام پر سماج کو تقسیم کرنے میں مصروف ہیں۔
علی گڑھ کی واردات ایک ’’ماڈرن نفرتی پالیسی‘‘ کی تازہ مثال ہے، جہاں جھوٹ اور فریب کے سہارے عوام کے ذہنوں میں بدگمانی بوئی جاتی ہے۔ سوشل میڈیا کے اس دور میں، ایسی کسی بھی تحریر یا تصویر کا مقصد فوری طور پر جذبات بھڑکانا اور ایک خاص طبقے کو نشانہ بنانا ہوتا ہے۔ چند لفظوں کی ایسی سازش کبھی پورے شہر کو آگ میں جھونک دیتی ہے۔افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ایسے واقعات کے پیچھے اکثر سماجی نہیں، سیاسی منصوبے چھپے ہوتے ہیں۔ بعض طاقتیں چاہتی ہیں کہ عوام کی توجہ بے روزگاری، مہنگائی، تعلیم اور صحت جیسے حقیقی مسائل سے ہٹ کر مذہبی منافرت میں الجھ جائے۔ علی گڑھ کا یہ معاملہ اگر پولیس کے مخلصانہ اقدام سے بے نقاب نہ ہوتا تو شاید ایک اور ’’فرقہ وارانہ فساد‘‘ سرخیوں میں ہوتا، اور کچھ لوگ سیاسی فائدہ سمیٹ رہے ہوتے۔
اس موقع پر اتر پردیش پولیس کی مستعدی قابلِ تعریف ہے۔ انہوں نے نہ صرف بے گناہوں کو بچایا بلکہ اس حقیقت کو اجاگر کیا کہ ہر مذہبی نعرہ الزام نہیں ہوتا اور ہر الزام سچ نہیں ہوتا۔ قانون کے سامنے سب برابر ہیں، چاہے وہ کسی بھی مذہب، ذات یا جماعت سے ہوں۔سماج کے سنجیدہ طبقات کو بھی اب یہ سمجھنا ہوگا کہ مذہبی نعرے یا مذہبی جذبات کے نام پر پھیلائی گئی ہر بات پر آنکھ بند کر کے یقین کرنا خود ایک خطرہ ہے۔ سچائی تک پہنچنے کے لئے صبر، عقل اور شعور کی ضرورت ہے، نہ کہ فوری اشتعال کی۔
اگر علی گڑھ کا واقعہ کسی بڑے حادثے میں نہیں بدلا تو اس کا سہرا ان لوگوں کے سر جاتا ہے، جنہوں نے اشتعال کے بجائے ہوش کا مظاہرہ کیا۔ یہی طرزِ فکر بھارت کے تنوع اور ہم آہنگی کی بنیاد ہے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ’’آئی لو محمد‘‘ جیسی تحریر اگر دلوں میں محبت جگانے کے بجائے نفرت بھڑکانے کےلئے استعمال ہو رہی ہے تو یہ مذہب نہیں، ایک سیاسی بیماری ہے۔ علی گڑھ کا واقعہ ایک سبق ہے، کہ جھوٹ کی بنیاد پر کھڑی نفرت دیرپا نہیں ہوتی، سچائی آخرکار سامنے آ ہی جاتی ہے۔