تاثیر 4 نومبر ۲۰۲۵:- ایس -ایم- حسن
بہار اسمبلی انتخابات 2025 اپنے پہلے مرحلے کی دہلیز پر ہیں، اور اس بار انتخابی ماحول میں ایک الگ ہی نوعیت کی سنجیدگی اور بیداری دیکھی جا رہی ہے۔ 6 نومبر کو ریاست کے کل 38 میں سے 18یعنی مدھے پورہ، سہرسہ، دربھنگہ، مظفر پور، گوپال گنج، سیوان، سارن، ویشالی، سمستی پور، بیگوسرائے، کھگڑیا، مونگیر، لکھی سرائے، شیخ پورہ، نالندہ، پٹنہ، بھوجپور اور بکسر ضلع کی 121 نشستوں پر ووٹنگ ہونی ہے۔ان پر 1314 امیدوار میدان میں ہیں۔کل شام 5 بجے سے انتخابی مہم کے اختتام کے بعد ان انتخابی حلقوں کی سڑکوں پر شور و غوغا کم ہو گیا ہے۔ الیکشن کمیشن کی سخت پابندیوں نے مائیک، جلوس اور ریلیوں کی حد بندی تو کی ہے، لیکن اس نے عوامی شرکت اور بیداری کے جذبے کو ہر گز کم نہیں ہونے دیا ہے۔
پٹنہ ضلع انتظامیہ کی جانب سے متعارف کرائی گئی ’’سنیما ڈسکاؤنٹ اسکیم‘‘ اس بار کی چناوی مہم کا سب سے تازہ اور مثبت پہلو ہے۔ ووٹ ڈالنے والے شہریوں کو 6 اور 7 نومبر کو سنیما ٹکٹوں پر 50 فیصد رعایت دی جائے گی، تاکہ لوگ ووٹ دینے کے بعد جمہوریت کے اس جشن میں شامل ہونے کا احساس کرسکیں ۔یہ قدم اس بات کی علامت ہے کہ بہار میں ووٹ ڈالنے کو صرف ایک سیاسی فریضہ نہیں بلکہ ایک ’’سماجی اور ثقافتی عمل ‘‘کے طور پر فروغ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔اسی طرح، بیداری کی مہم کے تحت این ایس ایس، این سی سی، کالج طلبہ، سماجی تنظیمیں، تاجر انجمنیں، ڈاکٹر ایسوسی ایشنز، حتیٰ کہ سوشل میڈیا اِنفلوئنسرز بھی سرگرم ہیں۔ اس چناوی عوامی بیداری مہم کے تحت بی ڈی کالج، پٹنہ میں کل منعقدہ ایس وی ای ای پی پروگرام میں اداکارہ نیتو چندرا نے طلبہ سے کہا تھا کہ ’’بہار ملک کا سب سے نوجوان ریاست ہے، اور اگر نوجوان آگے بڑھیں گے تو جمہوریت مضبوط ہوگی۔‘‘ یہ پیغام دراصل اس احساس کو اجاگر کرتا ہے کہ نوجوان ووٹر ہی بہار کی سیاست کا نیا چہرہ ہیں۔
دوسری جانب، انتخابی گہماگہمی کے بیچ کئی ’’متنازع بیانات‘‘ بھی سامنے آئے ہیں۔ جے ڈی یو کے سینئر رہنما اور مرکزی وزیر للن سنگھ کے ایک بیان پر الیکشن کمیشن نے نوٹس جاری کیا ہے، جس میں انہوں نے مبینہ طور پر اپنے ایک چناوی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے مخالف امیدواروں کو ووٹنگ کے دن گھروں سے باہر نہ نکلنے دینے کی بات کہی تھی۔ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق ان کے خلاف ایف آئی آر بھی درج کی جا چکی ہے۔ یہ واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ الیکشن کمیشن اس بار ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر سخت مؤقف اختیار کیے ہوئے ہے۔اسی درمیان سیاسی مہمات میں بڑے لیڈروں کی زبانی جنگ اپنے عروج پر ہے۔ مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے چمپارن کی ریلی میںیہ کہا ہے کہ ’’پاکستان اگر گولی چلائے گا تو جواب گولے سے دیا جائے گا‘‘۔ دوسری جانب راہل گاندھی نے بہار کی سرزمین سے کہا کہ ’’ہم نفرت کے بازار میں محبت کی دکان کھولنا چاہتے ہیں‘‘۔ ان بیانات سے یہ واضح ہے کہ انتخابی گفتگو میں عوامی مسائل کے ساتھ ساتھ نظریاتی لڑائی بھی جاری ہے۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ رواں انتخابی مہم میں روایتی مظاہرہ اور بڑے ہورڈنگز کی کمی محسوس کی گئی ہے۔ دیوالی اور چھٹھ کے درمیان محدود وقت کے باعث سیاسی سرگرمیوں کا مرکز زیادہ تر سوشل میڈیا، چھوٹی ریلیوں اور گھر گھر رابطہ مہم رہا ہے۔ اب جبکہ 121 نشستوں پر ووٹنگ کی تیاریاں مکمل ہو چکی ہیں، انتخابی عملہ ای وی ایم اور وی وی پیٹ لے کر پولنگ مراکز کی جانب روانہ ہو رہے ہیں۔اسی درمیان ایک افسوسناک خبر گیا ضلع سے بھی آئی ہے۔وہاں این ڈی اے کی حلیف جماعت ’ہم‘ کی امیدوار دیپا مانجھی کی ایک انتخابی گاڑی سے شراب کی بھاری کھیپ برآمد ہوئی ہے۔ اس واقعہ نے اپوزیشن کو ایک بار پھر یہ کہنے کا موقع دے دیا ہے کہ ’’بہار میں شراب بندی محض کاغذی قانون بن کر رہ گئی ہے؟‘‘
تمامترسیاسی الزام تراشیوں، اشتعال انگیز بیانات اور نفرت انگیز نعروں کے بیچ بہار کی عوامی فضا نسبتاً ’’پختہ اورباشعور‘‘ دکھائی دے رہی ہے۔ عوام اب یہ سمجھ چکے ہیں کہ ووٹ دینا صرف کسی پارٹی کو اقتدار میں لانے کا ذریعہ نہیں، بلکہ اپنے مستقبل کی سمت طے کرنے کا وسیلہ ہے۔ پٹنہ کی ’’سنیما ڈسکاؤنٹ اسکیم‘‘ ہو یا نیتو چندرا کی بیداری مہم،یہ سب اشارہ ہیں کہ اس بار بہار کا انتخابی منظر صرف سیاست نہیں، بلکہ جمہوریت کی بیداری کا مظہرہے۔کل 6 نومبر کو جب پہلے مرحلے ووٹنگ ہوگی تو یہ دن نہ صرف بہار بلکہ پورے ملک کے لئے ایک پیغام لے کر آئے گا کہ عوام اگر شعور کے ساتھ ووٹ دیتے ہیں تو جمہوریت نہ صرف وقار کے ساتھ زندہ رہے گی بلکہ اس میں مزید نکھار بھی آئے گا۔
********************

