اے ایم یو کے شعبہ ہندی کے زیر اہتمام ”معاصر ہندی ناول: وقت، سماج اور ثقافت کی مزاحمتی آواز“کے عنوان پر دو روزہ قومی سمینار کا آغاز

تاثیر 3 نومبر ۲۰۲۵:- ایس -ایم- حسن

علی گڑھ، 3 نومبر:علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ ہندی کے زیر اہتمام فیکلٹی آف آرٹس کے آڈیٹوریم میں ”معاصر ہندی ناول: وقت، سماج اور ثقافت کی مزاحمتی آواز“ موضوع پر دو روزہ قومی سمینار کا آغاز ہوا۔ افتتاحی اجلاس میں کنوینر پروفیسر شمبھو ناتھ تیواری نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ناول اور کہانیاں اپنے دور کے مسائل ہمارے سامنے لاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وقت کو سمجھنے کے لیے ماضی اتنا ہی اہم ہے جتنا کہ حال۔ سمینار کی ڈائریکٹر اور شعبہ ہندی کی صدر پروفیسر تسنیم سہیل نے تمام مہمانوں کا خیر مقدم کیا اور موضوع کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر پروفیسر محمد گلریز نے کہا کہ معاصر ہندی ناول بغاوت نہیں بلکہ شعور کی بیداری میں اپنا کردار ادا کررہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ادب تہذیب سے رابطہ کا قوی وسیلہ ہوتا ہے۔ انھوں نے پوسٹ ماڈرنزم سمیت دیگر تنقیدی اصطلاحات پر گفتگو کی اور اور مصنف سے زیادہ قاری کی مرکزیت پر زور دیا جو اپنے اعتبار سے کہانی سے معانی اخذ کرتا ہے۔ انھوں نے اس جانب بھی توجہ دلائی کہ بین الاقوامی ڈائسپورا پر ہندی میں بہت کم لکھا گیا ہے، اور جادوئی حقیقت نگاری (میجیکل ریئلزم) پر بھی چند ہی ناول ہیں۔ مشہور نقاد اور ادیب پروفیسر روہنی اگروال (مہارشی دیانند یونیورسٹی، روہتک) نے اپنے کلیدی خطبے میں کہا کہ ہمیں تاریخ کا شعور پیدا کرنا ہوگا اور اسی شعور کی روشنی میں ناول کو دیکھنا ہوگا کیونکہ وقت، سماج اور ثقافت دراصل اقتدار کی ساختیات سے پرورش پاتے ہیں اور اس میں تہہ در تہہ معانی پوشیدہ ہوتے ہیں۔ معاصریت کو سمجھنے کے لیے اس کے بنیادی عناصر کو سمجھنا ضروری ہے۔ جنگ پر مبنی ناولوں کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ ناول جنگ کی ہولناکی کو تو پیش کرتے ہیں مگر اس کے اسباب کا جائزہ نہیں لیتے۔انہوں نے کہاکہ کہانی کا لطف حاصل کرنے اور اس کی معنویت کو سمجھنے کے لئے پہلے عقل و شعور کو بیدار کرنا ہوگا، ورنہ جذبات کو محسوس کیا جاسکے گا مگر معانی و مفاہیم واضح نہیں ہوسکیں گے، جن میں اختلاف و انحراف اور بغاوت کی لہریں پنہاں ہوتی ہیں۔