Taasir Urdu News Network – Syed M Hassan 4th Jan.
چین سمیت کئی دوسرے ممالک میں کووڈ-19 کی نئی لہر کے بعد بھارت میں وائرس کو لیکر بڑھتی ہوئی تشویش میںدھیرے دھیرے کمی آنے کی خبرہے۔حالانکہ خطرہ ابھی بھی پوری طرح سے ٹلا نہیں ہے۔تاہم مرکزی اور ریاستی حکومتیں ابھی بھی پوری طرح سے چوکس ہیں۔ وقت پڑنے پراسپتال، بستر، آکسیجن وغیرہ کے معاملے میںکسی سطح سے کوئی چوک نہیں ہو، اس کا پورا خیال رکھا جا رہا ہے۔اس درمیان کہیں کہیں سے کورونا مثبت کیسز کے روزانہ کے اعداد و شمار میں بھی قدرے اضافہ کی رپورٹز آرہی ہیں۔مگر یہ اضافہ اتنا بڑا نہیں تھا کہ ہلچل مچ جائے۔ گزشتہ دو ہفتوں سے ملک میں روزانہ کورونا کیسز میں اضافہ کی رفتار بہت معمولی ہے۔ اتوار کو ختم ہونے والے ہفتے میں 1526 نئے کورونا کیسز سامنے آئے تھے، جو کہ گزشتہ ہفتے کے 1219 کیسز سے 25 فیصد زیادہ ہے۔ 25 فیصد گرچہ اپنے آپ میں بہت زیادہ لگتا ہے، لیکن اگر ہم اصل اعداد و شمار پر نظر ڈالیں تو ہفتہ وار فرق صرف 307 ہے۔ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اب یہ مان لیا جائے کہ کیا ملک میں کورونا کی چوتھی لہر آنے کا خطرہ ٹل گیا؟
تازہ صورتحال یہ ہے کہ کرناٹک میں کووڈ-19 کی وبا میں تیزی کے آثار ہیں۔ جنوبی بھارت کی اس ریاست میں گزشتہ ہفتے 276 نئے کورونا کیسز سامنے آئے تھے، جو کہ گزشتہ ہفتے کے مقابلے میں 150 زیادہ ہیں۔ نئے کورونا کیسز میں اتنا تیزی سے اضافہ ملک کی کسی اور ریاست میں نہیں دیکھا گیا ۔ چند دیگر ریاستوں میں بھی کورونا کے کیسز ضرور بڑھ رہے ہیں۔ مثال کے طور پرخود کیرالہ میں، نئے کورونا کیسز کی سب سے زیادہ تعداد 476 ریکارڈ کی گئی، جو گزشتہ ہفتے کے 416 سے صرف 60 زیادہ ہے۔ اس کے ساتھ ہی، تمل ناڈو میں گزشتہ ہفتے 86 نئے کورونا کیسز پائے گئے تھے، جو پچھلے ہفتے پائے جانے والے 47 کیسز سے صرف 39 زیادہ ہیں۔باقی ریاستوں میں نئے کورونا کیسز کی تعداد میں زیادہ اتار چڑھاؤ نہیں ہے۔ گزشتہ ہفتے مہاراشٹر میں 168 نئے کیسز درج کیے گئے تھے، جب کہ پچھلے ہفتے اس کی تعداد چار زیادہ تھی یعنی 172۔ اسی طرح راجستھان میں 81 کے خلاف صرف 48، قومی دارالحکومت دہلی میں 72 کے خلاف 81 معاملے پائے گئے۔ یہ اطمینان کی بات ہے کہ کسی بھی دوسری ریاست میں ہفتہ وار کورونا مثبت کیسز کی تعداد 50 سے زیادہ درج نہیں ہوئی ہے۔
اس درمیان مرکزی حکومت نے تمام ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ کووڈ ٹیسٹنگ اور کورونا ویکسین کی بوسٹر خوراک میں اضافہ کریں۔ اس کے ساتھ ہی مرکز نے ایجنسیوں سے وائرس کے نمونوں کی جینوم سیکوینسنگ کرنے کو بھی کہا ہے تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ تازہ کیسز کے لیے کورونا کی کون سا قسم ذمہ دار ہے۔ درحقیقت، چین میں کورونا وائرس کے نئے بی ایف ۔7 ویرینٹ سے پیدا ہونے والے ہنگامے کے بعد یہ شبہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یہ ویریئنٹ بھارت میں بھی آیا ہوگا۔ مارچ، 2020 کے بعد پہلی بار 26 دسمبر سے یکم جنوری کے ہفتے میں کورونا وائرس سے ہونے والی اموات کی تعداد کم ہو کر صرف چھ رہ گئی ہے۔ بھارت میں پہلی بار 16 سے 22 مارچ، 2022 کے پہلے ہفتے میں کووڈ سے کوئی موت نہیں ہوئی ہے۔ اس کے بعد یکم جنوری کو ختم ہونے والا ہفتہ کووڈ کے نقطۂ نظر سے بہترین رہا۔
اِدھر نئے سال کے پہلے دن سے ہی مرکزی حکومت نے چین، سنگاپور، ہانگ کانگ، جنوبی کوریا، تھائی لینڈ اور جاپان سے آنے والے مسافروں کے لیے آرٹی پی سی آر منفی رپورٹ کو لازمی کردیا ہے۔ ان ممالک سے آنے والی تمام بین الاقوامی پروازوں میں مسافروں کے لیے پری ڈیپارچر آرٹی پی سی آرمنفی ٹیسٹ رپورٹ لازمی ہے۔ حکومت کی طرف سے ایئر لائن کو جاری کردہ ہدایات کے مطابق رپورٹ سفر کے آغاز سے 72 گھنٹے کے اندر کی ہونی چاہیے۔ ان ممالک کے علاوہ ہر بین الاقوامی پرواز پر آنے والے مسافروں کی دو فیصد رینڈم اسکریننگ بھی جاری ہے۔ کورونا وائرس کو لیکرصرف بھارت ہی نہیں بلکہ دنیا کے کئی دوسرے ممالک بھی چین میں کورونا کے کیسز کو لے کر چوکس ہیں۔ امریکہ، جاپان، اٹلی سمیت کئی ممالک نے بھی چین سے آنے والے مسافروں کے لیے خصوصی قوانین بنائے ہیں۔ رپورٹ ہے کہ چین میں کورونا کی وجہ سے صورتحال دن بدن خراب ہوتی جارہی ہے، اس کے باوجود وہ 8 جنوری سے اپنی سرحدیں کھول رہا ہے۔ اس سے دنیا کے کئی ممالک میں بے چینی بڑھ گئی ہے۔ چنانچہ بھارت سمیت کئی ممالک نے چین سے آنے والے لوگوں کے لیے کورونا منفی رپورٹس کو ضروری قرار دے دیا ہے۔ چینی مسافروں کے لیے سخت کووڈ قوانین بنانے والے ممالک کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے بھی چین کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ان حالات میں یہ نہیں مانا جا سکتا ہے کہ بھارت میں کورونا کی چوتھی لہر کے آنے کا خطرہ ٹل گیاہے۔ہاں ، فی الحال تھوڑی راحت ضرور ہے، لیکن لاپروا ئی میں ابھی بھی خطرہ برقرار ہے۔
*************************