TAASIR NEWS NETWORK- SYED M HASSAN –25 MAY
ریاست بہار میں ذات پر مبنی سروے کا معاملہ ابھی سب جیوڈس ہے، اس لئے فی الحال اس سلسلے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا ہے۔لیکن یہ بات تو پوارا ملک جانتا ہے کہ بہار میںایک عرصے سے ذات پات کی بنیاد پر انتخابات لڑے جاتے رہے ہیں۔ خواہ سرپنچ کے انتخابات ہوں، گرام پنچایت کےمکھیاکے یا ودھان سبھا اور لوک سبھا کے، بہار میں ذات پات کے تانے بانے کے بغیر نامکمل سمجھے جاتے رہے ہیں۔ اس طرح بہار میں ذات پات کی بنیاد پر سیاست اب ناگزیر ہو گئی ہے۔ تمام سیاسی پارٹیاں اب یہ ماننے لگی ہیں کہ بہار میں اقتدار تک پہنچنے یا طویل عرصے تک اقتدار میں بنے رہنے کے لیے ذات پات کی سیاست ناگزیر ہے۔ریاست کی سبھی علاقائی جماعتوں کی طرح، سب کا ساتھ، سب کا وکاس کا نعرہ دینے والی بی جے پی جیسی قومی پارٹی بھی ذات پات کے سہارے بہاری سیاست کی بیترنی پا ر کرنے کی کوشش میں مصروف ہو گئی ہے۔ سب کی اپنی ذات کے مساوات ہیں۔ بی جے پی نے بھی بہار میں ذات پات کے مساوات پیدا کرنے کی تیاری شروع کر دی ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ جب لالو یادو نے بہار میں’’مسلم۔ یادو ‘‘ ایکویشن قائم کیا تو اقتدار ان کے خاندان کے پاس 15 سال تک رہا۔ انہوں نے سماجی انصاف کا نعرہ دے کر سیاست میں ایک نئے فلسفے کی بنیاد رکھی تھی۔ بعد میں بی ایس پی کی مایاوتی نے یوپی میں اسی طرز پر سوشل انجینئرنگ کا راستہ اپنایا۔ شروع میں انہیں اس کی مدد سے کامیابی ملی، لیکن بعد میں’’ یادو ۔مسلم‘‘کو ایک سیاسی پلیٹ فارم پر لاکر سماج وادی پارٹی نے مایاوتی کی سوشل انجینئرنگ کو ناکام بنا دیا۔ بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار کا بھی جھکاؤ’’ لو۔ کش‘‘ سماجی انجینئرنگ کی جان رہا ہے۔ویسے ان کے ساتھ مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ بھی جڑ چکا ہے۔بی جے پی کو بھی لگنے لگا ہے ذات پات کی بیساکھی کے بغیر بہار کے سیاسی راستے پر چلنا آسان نہیں ہے۔ حالانکہ اب آ ر جے ڈی ذات پات کے حصار سے باہر نکل کر ’’اے ٹو زیڈ‘‘کی سیاست کرنے کی بات کہنے لگی ہے۔اس سمت میں اس نے پہل بھی کی ہے۔
آپ کو یاد ہوگا، سال 1994 میں نتیش کمار کی حمایت میں پٹنہ کے گاندھی میدان میں کرمی اور کشواہا برادری کا ایک بڑا اجتماع ہوا تھا۔ نتیش کماربھی اس میں موجود تھے۔ اسی اجتماع میں متفقہ طور پر نتیش کمار کو اپنا لیڈر تسلیم کرتے ہوئے کسی بھی قیمت پر انہیں اقتدار میں لانے کا عزم کیا ۔ اس فیصلے کا فوری فائدہ یہ ہوا کہ نتیش کمار کی، اس وقت کی سمتا پارٹی کی اسمبلی میں سیٹیں بڑھنے لگیں۔سال 2005 میں آخر کار نتیش کمار وزیراعلیٰ بن گئے۔بی جے پی نے نتیش کے ساتھ رہ کر’’ لو ۔کش‘‘ کی طاقت کو شدت سے محسوس کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہار میں نتیش کو کمزور کرنے کے لیے بی جے پی نے سب سے پہلے’’ لو ۔کُش‘‘ ایکویشن پر عمل کرنے کا کام کیا ہے۔ بی جے پی نے سب سے پہلے اپیندر کشواہا کو نتیش سے الگ کیا، جنہوں نے’’ لو۔ کش‘‘ایکویشن‘‘ بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا تاکہ کشواہا برادری کا ایک بڑا طبقہ نتیش کمار سے الگ ہو جائے۔دوسری جانب بی جے پی نے کشواہا ووٹوں کو اپنے قبضے میں کرنے کے لئے، کشواہا برادری کے سمراٹ چودھری کو پارٹی کا ریاستی صدر بنا دیا ہے۔ یعنی ’’لو۔ کش ‘‘ ایکویشن سے بی جے پی نے کش کو نتیش کمار سے الگ کر دیا ہے۔ چند سیاسی مبصرین کا ماننا ہے کہ سابق مرکزی وزیر آر سی پی سنگھ، جنہیں کبھی نتیش کا دایاں ہاتھ سمجھا جاتا تھا، اب اپنے ساتھی حامیوں کے ساتھ بی جے پی میں شامل ہو گئے ہیں۔اس طرح کرمی ووٹوں پر سے بھی نتیش کا اثر ختم ہو گیا ہے۔ چونکہ آر سی پی سنگھ ایک عرصے تک نتیش کمار کی پارٹی جے ڈی یو کے قومی صدر رہے ہیں۔قومی صدر کے عہدے سے ہٹائے جانے سے پہلے آر سی پی سنگھ کا 2019 کے لوک سبھا اور 2020 کے اسمبلی انتخابات میں ٹکٹوں کی تقسیم میں اہم کردار تھا۔ انہوں نے جن لیڈروں کو ٹکٹ دینے میں مدد کی ان میں سے چنداب بھی آر سی پی کے ہمدرد ہیں۔ بی جے پی نے سمراٹ چودھری اور آر سی پی سنگھ کو لے کر ایک نیا’’ لو۔ کش‘‘ ایکویشن بنالیا ہے۔کیا ایسا کر لینے سے بی جے پی بہار کی انتخابی جنگ جیت لینے کی پوزیشن میں آ گئی ہے ؟ یہ ایک ایسا سوال ہے، جس کا جواب ابھی دینا جلدی بازی کا کام ہوگا۔
یہ حقیقت ہے کہ نتیش کمار کے این ڈی اے سے علیحدگی کے بعد بہار میں بی جے پی بالکل تنہا رہ گئی تھی۔ امت شاہ کی انتخابی حکمت عملی کی مدد سے بی جے پی نے اپنا تانا بانا بننا شروع کردیا ۔ذات پات پر مبنی ایکویشن تیار کرنے کے بعدبھی بی جے پی کو جب لگا کہ نتیش کمار کی کمی پوری نہیں ہو پارہی ہے تو پھر اس نے چھوٹی چھوٹی پارٹیوں کو اپنے ساتھ اکٹھا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ایک ایک کر کے ایسی پارٹیوں کے رہنماؤں کی بی جے پی کے سرکردہ لیڈروں سے ملاقاتیں بھی ہو رہی ہیں۔ ان میں ایچ اے ایم (ایس ای) کے جیتن رام مانجھی، وی آئی پی کے مکیش ساہنی، ایل جے پی کے دونوں گروپ لیڈر چراغ پاسوان اور پشوپتی پارس شامل ہیں ۔اس طرح بی جے پی نے بہار میںعظیم اتحاد کو شکست دینے کی حکمت عملی تیار کر لی ہے۔حالانکہ اپوزیشن نے جس طرح متحد ہو کر بی جے پی کے سامنے ایک بڑا چیلنج کھڑا کیا ہوا ہے، اس کے پیش نظر ابھی یہ کہنا مشکل ہے کہ بی جے پی اپنے’’ بہار مشن ‘‘میںکتنا کامیاب ہوگی۔خاص کر ایسے موقع پر جب کہ کرناٹک اسمبلی انتخابات کےبعد سےعظیم اتحاد کا حوصلہ کافی بلند ہے۔
************