TAASIR NEWS NETWORK- SYED M HASSAN –25 MAY
محمد اختر عادل گیلانی
حسد کا مطلب یہ ہے کہ کسی شخص کو اللہ نے جو نعمت و فضیلت یا خوبی و خوشحالی عطا کی ہو اس پر کوئی دوسرا شخص جلے اور یہ چاہے کہ وہ اس سے سلب ہوکر حاسد کو مل جائے یا کم از کم یہ اس سے ضرور چھن جائے-مزید یہ کہ اللہ کی طرف سے کسی کو ملنے والی نعمتوں و رحمتوں اور ترقی و خوشحالی کو دیکھ کر دل میں کُڑھنا، اس کے زوال کی تمنا کرنا اور اس کو نقصان پہنچانے کی قولی و عملی فکر و تدبیر اور سعی و جہد کرنا حسد کہلاتا ہے-یہ آپس کے تعلقات کو بگاڑنے اور خوشگوار خاندانی و سماجی ماحول کو خراب کرنے کا سبب بنتا ہے- یہ بڑی برائی اور کبیرہ گناہ میں شامل ہے-اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے(ترجمہ): ” پھر کیا یہ دوسروں سے اس لیے حسد کرتے ہیں کہ اللہ نے انہیں اپنے فضل سے نواز دیا”؟ (النساء:54)
حسد ہی سے ملتی جُلتی ایک اور چیز ہوتی ہے، وہ ہے رشک کرنا- رشک یہ ہے کہ کوئی شخص دوسرے کی ترقی و خوشحالی کو دیکھ کر خوش ہو اور اپنے بھائی کے حق میں دعائے خیر کرے اور اللہ سے دعا کرے کہ جس طرح تونے میرے بھائی کو مال و اسباب، اولاد، گھر دوار اور علم و صحت عطا فرمایا ہے مجھے بھی عطا فرما- یہ اپنے آپ میں بری چیز نہیں ہے بلکہ جائز ہے-جب تک حاسد اپنے دل کی آگ بجھانے کے لیے اپنے قول و عمل سے کوئی عملی اقدام نہیں اٹھاتا اس کا نقصان محسود کو نہیں پہنچتا ہے، بلکہ اس کا نقصان خود حاسد ہی کو ہوتا ہے-حاسد کے ذہن و دماغ میں مخالف کے بارے میں کینہ و بغض بھرا رہتا ہے جو اس کو ذہنی و نفسیاتی طور پر بیمار کر دیتا ہے-حاسد شخص اپنے اعمال کی فکر کرنے کے بجائے دوسرے کی بد خواہی اور نیچا دکھانے میں لگ جاتا ہے، جس سے اسے کوئی فائدہ تو نہیں پہنچاتا ہے الٹے وہ امن و سکون اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کھو دیتا ہے اور اس کے دل کی جلن اور بڑھ جاتی ہے-حسد کے متعلق چند احادیث ملاحظہ ہوں:
آپﷺ نے فرمایا: حاسد کی مثال اس جلتی لکڑی کی طرح ہے جو دوسروں کو جلاتی اور نقصان پہنچاتی ہے اور خود بھی چل کر راکھ ہو جاتی ہے- ” تم لوگ حسد سے بچو، بیشک حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے، جس طرح آگ لکڑی کو کھا جاتی ہے- لوگ برابر خیر کے ساتھ رہیں گے جب تک کہ حسد نہ کریں -ایک دوسرے کی ٹوہ اور جستجو میں مت رہو، ایک دوسرے سے بے جا بڑھنے کی ہوس نہ کرو، اور ایک دوسرے سے حسد نہ کرو- حاسد شخص جنت میں داخل نہ ہوگا-
جب حاسد، حسد میں آکر عملی اقدام کرنے لگے، بدنام اور عزت کو نیلام کرنے لگے، غنڈہ گردی اور جھوٹے کیس مقدمہ میں پھنسائے اور سحر و جاد ٹونا کا سہارا لے، جیسا کہ خود رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہوا، تو ایسی حالت میں حاسد کے حسد سے بچنے کے لیے اللہ سے پناہ مانگنا چاہیے- کہو، میں پناہ مانگتا ہوں صبح کے رب کی، ہر اس چیز کے شر سے جو اس نے پیدا کی ہے، اور رات کی تاریکی کے سر سے جب کہ وہ چھا جائے، اور گرہوں میں پھونکنے والوں(یا والیوں) کے سر سے، اور حاسد کے شر سے جب کہ وہ حسد کرے-(الفلق:1-5)
حاسد کے حسد سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ اللہ پر بھروسہ رکھا جائے، تقویٰ اور صبر پر قائم رہا جائے، حاسد سے برا برتاؤ اور بد اخلاقی کا مظاہرہ نہ کیا جائے، بلکہ ہو سکے تو اس کے ساتھ بھلائی اور احسان کا رویہ اپنایا جائے-
بہر حال حسد ایسی بری صفت ہے جو انسان کو پر سکون زندگی جینے نہیں دیتی- ایسا شخص ہر کسی کو شک کی نظروں سے دیکھتا اور بدگمانی میں مبتلا ہوتا، دوسرے کے متعلق اس کے دل میں حقارت و نفرت کی کیفیت جنم لیتی ہے-اس لیے ہمیں چاہئے کہ اپنے و گھر والے کا جائزہ لیتے رہیں اور اس سے بچنے کی کوشش کریں کیوںکہ اس سے کوئی فائدہ نہیں بلکہ دنیا و آخرت کو گھاٹے میں ڈالنا ہے- اس لیے ہر مسلمان کو چاہیے کہ ہر حال میں حسد سے بچنے کی کوشش کرے، کیونکہ جس معاشرے میں لوگ ایک دوسرے سے حسد کرتے اور ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچتے اور سازش رچنے میں لگے رہتے ہیں تو ان کی ساری قوت و صلاحیت اسی میں صرف ہوجاتی ہے-
رابطہ:9852039746