حضور مفتی اعظم ہند بریلوی کی سوانح حیات‎

Taasir Urdu News Network | Uploaded on 02-September 2020

محمد سلیم مصباحی قنوج

تاجدار اہل سنت ،شمس العارفین،نائب سید المرسلین ،حضرت مولانا الحاج الشاہ ابو البرکات محی الدین جیلانی آل رحمٰن محمد مصطفی رضا خان نوری بریلوی رضی اللہ تبارک تعالیٰ عنہ المعروف بہ مفتی اعظم ہند ۔

حضور مفتی اعظم ہند کی ولادت باسعادت ۲۲ ذی الحجہ ۱۳۱۰ھ مطابق ۱۸ جولائی۱۸۹۲ عیسوی بروز دوشنبہ بریلی شریف میں ہوئی۔

قرآن پاک کی اس آیۃ سے حضور مفتئ اعظم ہند قدس سرہ کی ولادت کا سن ہجری نکلتا ہے۔

وَ سَلٰمٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِينَ اصْطَفٰی

ترجمہ…. اور سلام اس کے چُنے ہوئے بندے پر… (پارہ ۱۹سورۃ النمل.. آیت ۵۹)۔

حضور مفتی اعظم ہند کی ولادت سے قبل امام اہل سنت امام احمد رضا خاں قادری بریلوی قدس سرہ اپنے پیر ومرشد رہبر کامل ،زبدۃ العارفين حضرت سید شاہ آل رسول مارہروی قدس سرہ کے مزار اقدس کی زیارت اور قدوۃ السالکین سید المائخ حضرت سید شاہ ابوالحسین احمد نوری قدس سرہ کی زیارت کرنے کے لئے مارہرہ مطہرہ تشریف لے گئے تھے ۔ ۲۲ ذی الحجہ ۱۳۱۰ھ کی شب کو امام احمد رضا خاں قادری بریلوی قدس سرہ اور سید المشائخ حضرت سید شاہ ابوالحسین احمد نوری قدس سرہ کے درمیان علمی مذاکرات ہوئے اور تقریباً آدھی رات کے وقت دونوں بزرگ آرام کرنے کے لئے اپنے اپنے قیام گاہ کی طرف تشریف لے گئے ۔ اسی رات دونوں بزرگوں نے خواب دیکھا خواب ہی میں مفتئ اعظم ہند قدس سرہ کی ولادت کی خوشخبری ملی ۔فجر کی نماز کے لئے جب دونوں بزرگ مسجد پہنچے تو مسجد کے دروازے پر ہی دونوں بزرگوں کی ملاقات ہوگئی وہیں پر ایک دوسرے کو مبارکباد پیش کی نماز فجر کے بعد سید المشائخ حضرت سید شاہ ابوالحسین احمد نوری قدس سرہ نے امام اہلسنت فاضل بریلوی قدس سرہ سے فرمایا کہ مولانا آپ اس بچے کے ولی ہیں اجازت دیں تو اس کو داخل سلسلہ کر لوں ۔

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں قادری بریلوی قدس سرہ نے جواب دیا”حضور آپ کا ہی غلام زادہ ہے آپ ضرور اسے داخل سلسلہ فرما لیں”… ۔ سید المشائخ حضرت سید شاہ ابوالحسین احمد نوری قدس سرہ مصلیٰ پر بیٹھے بیٹھے غائبانہ داخل سلسلہ فرمایا اور امام احمد رضا خاں قادری بریلوی قدس سرہ کواپنا جبہ و عمامہ عطا فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا ۔” میری یہ امانت آپ کے سپرد ہے جب وہ نومولود بچہ اس کا متحمل (بوجھ اٹھانے کے قابل) ہو جائے تو اسے دے دیں ۔ سید المشائخ حضرت سید شاہ ابوالحسین احمد نوری قدس سرہ نے فرمایا جب بریلی شریف آؤں گا تو اس کی روحانی امانتیں اس کے سپرد کروں گا ۔ جس وقت آپ کی ولادت ہوئی اس وقت آپ کے والدماجد اعلی حضرت امام احمد رضا قدس سرہ مارہرہ مطہرہ میں جلوہ افروز تھے جیسا کہ آپ نے اوپر پڑھا ۔ حضرت مخدوم شاہ ابوالحسین احمد نوری میاں قدس سرہ ابو البرکات محی الدین جیلانی نام تجویز فرمایا بعد میں مصطفٰی رضا خان عرف قرار پایا اور خاندان کے رسم کے مطابق محمد کے نام پر عقیقہ ہوا۔ حضرت شاہ ابو الحسین احمد نوری میاں قدس سرہ نے امام اہلسنت فاضل بریلوی قدس سرہ سے فرمایا مولانا جب میں بریلی آؤنگا تو اس کو ضرور دیکھوں گا وہ بہت ہی مبارک بچہ ہے۔ چنانچہ جب آپ بریلی شریف رونق افروز ہوئے اس وقت حضور مفتی اعظم ہند کی عمر شریف صرف چھ ماہ تین دن کی تھی خواہش کے مطابق بچے کو دیکھا اور اس نعمت کے حصول پر امام اہلسنت قدس سرہ کو مبارک باد دی اور فرمایا یہ بچہ دین و ملت کی بڑی خدمت کرے گا اور مخلوق خدا کو اس کی ذات سے بہت فیض پہنچے گا یہ بچہ ولی ہے اس کی نگاہوں سے لاکھوں گمراہ انسان دین حق پر قائم ہوں گے، یہ فیض کا دریا بہائے گا۔

حضور مفتی اعظم ہند قدس سرہ ایک ایسے علمی و روحانی خانوادے کے چشم و چراغ ہیں جہاں کا پورا ماحول علم و نور کے سانچے میں ڈھلا ہوا ہے پھر آپ اس سے متاثر نہ ہوں یہ کیسے ہو سکتا ہے چنانچہ خوب ہو اکتساب فیض کیا اور مارہرہ مطہرہ کے فیوض و برکات کو خوب حاصل کیا۔ آپ نے پہلے حضرت مولاناشاہ رحم الہی منگلوری اور مولانا بشیر احمد علی گھڑی علیہ الرحمہ سے خصوصی درس حاصل کیا اس کے بعد علوم وفنون اپنے والد ماجد سرکار اعلی حضرت قدس سرہ کی آغوش تربیت میں رہ کر جملہ علوم و فنون کو پائے تکمیل تک پہنچایا ۔ حضور مفتی اعظم ہند نے تفسیر،حدیث ،فقہ ، اصول فقہ ،صرف و نحو کے علاوہ تجوید، ادب، فلسفہ ،علم جفر و تکسیر ،علم تقویت، اور فن تاریخ گوئی میں بھی کمال حاصل کیا۔ حضور مفتئ اعظم ہند قدس سرہ کو۱۳۲۸ھ. میں دستار فضیلت سے نوازا گیا حضور مفتی اعظم ہند قدس سرہ کے اساتذہ کرام کی فہرست بہت ہی مختصر ہے جیسے امام اہل سنت امام احمد رضا خاں قادری بریلوی قدس سرہ کے اساتذہ کی فہرست مختصر ہے بہر کیف ذیل میں حضور مفتئ اعظم ہند قدس سرہ کے اساتذہ کی فہرست ملاحظہ فرمائیں ۔

۔۱…حضرت مولانا رحم الہی منگلوری. تلمیذ مولانا عبدالعزیز انبیٹوی۔

۔…۲ حضرت مولانا سید بشیر احمد علی گڑھی. تلمیذ مولانا لطف اللّہ علی گڑھی ۔

۔… ۳ مولانا ظہور الحسن رامپور. تلمیذ مولانا شاہ فضل رحمن گنج مرادآبادی۔

۔… ۴ حجۃالاسلام حضرت مولانا حامد رضا خاں قادری بریلوی ۔

۔… ۵ امام اہل سنت امام احمد رضا خاں قادری بریلوی قدس سرہ ۔

آپ کو بیعت کا شرف قطب عالم شیخ طریقت حضرت شاہ ابو الحسین احمد نوری مارہروی قدس سرہ سے تھا، آپ کے شیخ سید المشائخ حضرت سید شاہ ابوالحسین احمد نوری قدس سرہ جب بریلی شریف تشریف لائے تو ۲۵.جمادی الثانی ۱۳۱۱ھ کو سید المشائخ نے آل رحمن ابو البرکات محی الدین جیلانی کے منہ میں اپنا انگشت مبارک ڈالی. حضور مفتئ اعظم ہند قدس سرہ شیر مادر کے طرح چوسنے لگے اس طرح آپ کے شیخ طریقت نے بیعت کرنے کے ساتھ ساتھ جملہ سلاسل کی اجازت سے بھی نوازا۔جیسے سلسلہ قادریہ ،چشتیہ ،نقشبندیہ، سہروردیہ،مداریہ۔ پنے شیخ طریقت کے علاوہ والد ماجد امام علی سنت سرکار اعلی حضرت فاضل بریلوی قدس سرہٗ سے بھی خلافت و اجازت حاصل تھی۔ حضور مفتی اعظم ہند ہند عالم اسلام نے صرف ۱۳ سال کی قلیل عمر میں رضاعت کا مسئلہ لکھا بعد فراغت اعلی حضرت قدس سرہ العزیز کی حیات طیبہ ہی میں فتویٰ نویسی کا کام سونپ دیا گیا تھا جس کی ابتداء کا واقعہ بڑا دلچسپ ہے۔ حضرت مولانا ظفرالدین حضرت مولانا سید عبدالرشید رحمہم اللہ کام کرتے تھے ابھی آپ کی نو عمری کا علم تھا ایک دن دارالافتاء میں پہنچے تو دیکھا کہ مولانا ظفر الدین بہاری علیہ الرحمہ فتویٰ لکھ ہی مراجع کے لیے فتویٰ رضویہ الماری سے نکالنے لگے اس پر حضورمفتی اعظم ہند نے فرمایا کیا فتویٰ رضویہ دیکھ کر جواب لکھتے ہیں۔ ملک العلماء نے جواب دیا اچھا تو آپ بغیر دیکھے لکھ دیجیۓ

حضور مفتی اعظم ہند نے قلم پکڑا جواب لکھ دیا جو رضاعت کا مسئلہ تھا اور یہ آپ کا پہلا فتویٰ جس کو آپ نے اپنی زندگی میں قلمبند فرمایا۔ اصلاح و تصحیح کے لئے امام اہلسنت قدس سرہ کی خدمت میں پیش کیا گیا جو اب کے صحیح ہونے پر امام اہلسنت بہت خوش ہوئے ۔  اور صح الجواب بعون اللہ العزیز الوھاب لکھ کر دستخط ثبت فرمایا اور انعام کے طور پر پانچ روپے نیز ابو البرکات محی الدین جیلانی آل الرحمن محمد عرف مصطفٰی رضا کی مہر مولانا حافظ یقین الدین علیہ الرحمہ کے بھائی سے بنواکر عطا فرمائئ۔یہ واقعہ ۱۳۲۸ھ کا ۔  حضور مفتی اعظم ہند صرف ہند کے مفتئ اعظم نہیں بلکہ عالم کے مفتئ اعظم ہیں ثبوت کے طور پر ذیل کا واقعہ ملاحظہ فرمائیں۔ جنرل ایوب خان کے دور میں پاکستان میں حکومت کی طرف سے ایک روایت ہلال کمیٹی قائم کی گئی تھی جس کے عہدیداران عید و بقر عید کے موقع پر خاص طور سے مشرقی و مغربی پاکستان میں جہاز کے ذریعے سے چاند دیکھنے کا اہتمام کرتے تھے۔ اور پھر ان کی تصدیق پر حکومت کی جانب سے ملک میں رویت ہلال کا اعلان کیا جاتا تھا۔

ایک بار عید کے موقع پر ۲۹ رمضان کو اس کمیٹی کے افراد ہوائی جہاز کے ذریعے چاند دیکھنے کو آڑے مشرقی پاکستان سے مغربی پاکستان جاتے ہوئے انہیں چاند نظر آگیا اور انہوں نے اس کی اطلاع حکومت کو دے دی۔ اور پھر حکومت کی جانب سے رویت کا اعلان کردیا گیا مگر وہاں کے سنی علماء نے اس کو نہ مانا اور انھوں نے دنیا کے تمام اسلامی ممالک جیسے شام ،اردن، عرب،مصر کے مفتیان کرام سے اس سلسلہ میں فتوی مانگا اور ایک استفتاءسرکار مفتی اعظم ہند قدس سرہ کے پاس بریلی شریف بھی روانہ کیا۔ تقریبا دنیا کے سبھی مفتیان کرام نے رویت ہلال کمیٹی پاکستان کی تائید کی مگر علم و فضل کے تاجدار فقیہ اعظم مفتی اعظم عالم قدس سرہ نے نہیں مانا اور اپنا فتوی دیا جس کا مضمون کچھ یوں تھا۔

چاند دیکھ کر روزہ رکھنے اور عید کرنے کا شرعی حکم ہے اور جہاں چاند نظر نہ آئے وہاں شرعی شہادت پر قاضی شرع حکم دے گا۔ چاند کو سطح زمین یا ایسی جگہ سے کہ زمین سے ملی ہوئی ہو وہاں سے دیکھنا چاہیے ۔رہا جہاز سے ???? دیکھنا یہ غلط ہے کیونکہ غروب ہوتا ہے فنا نہیں ہوتا ہے۔ اس لئے کہیں۲۹ کو اور کہیں ۳۰ کو نظر آتا ہے اور اگر جہاز اڑا کر چاند دیکھنا شرط ہے تو اور بلندی پر جانے کے بعد ۲۷ اور 28 تاریخ کو بھی چاند نظر آ سکتا ہے تو کیا ستائیس اٹھائیس تاریخ کو بھی چاند کا حکم دیا جائے گا اور نہ ہی کوئی عاقل اس کا اعتبار کرے گا ایسی حالت میں جہاز سے ۲۹ کے چاند کو دیکھنا کب معتبر ہوگا۔ حضور مفتی اعظم عالم اسلام قدس سرہٗ کے اس جواب کو پاکستان کے ہر اخبار میں جلی سرخیوں کے ساتھ شائع کیا گیا اور اس فتوے کا پاکستان میں جانے کے بعد اگلے مہینے میں ۲۷ اور ۲۸ تاریخ کو حکومت کی جانب سے جہاز کے ذریعے اس بات کی تصدیق کرائی گئی تو بلندی پر پرواز کرنے پر چاند نظر آیا تب حکومت پاکستان نے حضرت مفتئ اعظم عالم اسلام قدس سرہ کے فتوے کو تسلیم کرکے رویت ہلال کمیٹی توڑ دی اور دنیا کےتمام مفتیان کرام نے ان کی بارگاہ علم و فضل میں سر عقیدت خم کردیا۔

حدیث شریف میں ہے کہ ظالم بادشاہ کے سامنے کلمۂ حق کہنا افضل جہاد ہے۔لہذا مؤمن کی شان ہوتی ہے کہ وہ باطل سے کبھی دبتا اور تختۂ دار پر بھی حق کا اعلان کرتا رہتا ہے۔ حضور مفتئ اعظم ہند قدس سرہ تو مؤمنوں کے سردار، اہل سنت کے تاجدار ہیں ان کی مؤمنانہ شانِ حق گوئی و بے خوفی کا اندازہ کون لگا سکتا ہے۔ حضور مفتئ اعظم ہند قدس سرہ کی پوری زندگی کا ہر لمحہ اعلان حق میں گزرا. نجدیت، دیوبندی، نیچریت، قادیانیت، جیسے باطل فرقوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور تمام باطل پرستوں کی خوب خوب سرکوبی کی۔ حضور مفتی اعظم ہند نے شدھی تحریک، انگریزی تحریک کا بھی بھر پور مقابلہ فرمایا اور اپنے فتاویٰ نیز عملی میدان میں کام کرکے دین حق مذہب اہل سنت کی ترجمانی کی اور مسلمانان ہند وپاک کو ہر دشمن طاقتوں (خواہ دینی ہو یا دنیاوی). سے بچایا۔ حضور مفتئ اعظم ہند قدس سرہ کا دور تھا۷۷.۱۹۷۶ یہ ایسا پرفتن دور ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو ایک ایسے طوفان میں کھڑا کر دیا جہاں سے اسلامیان ہند کے سفینۂ اعتقاد کے تختے ٹوٹتے ہوئے نظر آ رہے تھے۔ سعودی ریال، امریکی ڈالر اور گورنمنٹ کے ٹکڑوں پر پلنے والے علماء کے قدموں میں لغزش آگئی اور بڑے بڑے دارالافتاء کے مفتیوں نے نسبندی کے جواز کا فتوی دے دیا اور ان بکے ہوئے مفتیوں کے فتوؤں کو ریڈیو، اخبارات کے ذریعے خوب خوب پرچارکراگیا۔ ہندوستان کے مسلمان ایسے موڑ پر پہنچ چکے تھے جہاں ہر طرف تاریکی، خاموشی اور خوف کا ماحول تھا. پوری قوم مسلم ایک ایسے امیر کارواں کی تلاش میں سرگرداں تھی جو اسے سہارا دے ان کے ایمان و عقیدے کی زمین کو سیراب کرے۔

تمام ہند و پاک کے مسلمانوں کی نظر شہر عشق و محبت، پاسبان ناموس رسالت بریلی شریف کی جانب لگی ہوئی تھی. اور پھر بریلی کا مرد مجاہد ناموس رسالت کی حفاظت کے لئے اپنے علمی وقار کے ساتھ اٹھتا ہےاور بمصداق حدیث پاک ظالم بادشاہ کے سامنے کلمۂ حق کہنا افضل جہاد ہے اعلان فرماتا ہے ۔ نسنبدی حرام ہے… حرام ہے…. حرام ہے اور ملک کے کونے کونے میں پوسٹوں پمفلٹ کے ذریعے اس کو پھیلایا گیا اور گورنمنٹ کے کارندے آپ کی بارگاہ میں پہنچ کر کہتا ہے کہ آپ اپنا فتویٰ واپس لے لیں تو ۔ حضور مفتئ اعظم ہند قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں مصطفیٰ رضا خاں اپنا فتویٰ واپس نہیں لے گا ضرورت پڑی تو حکومت بدل جائے گی اور خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ حضرت مفتی اعظم ہند کی دعا سے حکومت ہی ختم ہوگئی.۔ مفتی ہند: حضور مفتی اعظم ہندقدس سرہ کی نوجوانی کا زمانہ تھا ……اعلی حضرت امام احمدرضا قدس سرہ العزیز نے تقاضائے وقت کے پیش نظر بریلی شریف میں دار القضاء شرعی کا قیام فرمایا۔چونکی قاضی کے لئے کافی تربیت،تفقہ،اور تجربہ کی ضرورت ہوتی ہے اور اس اعتبار سے حاضرینِ دربار ِرضوی میں سب سے زیادہ فائق حضرتِ صدر الشریعہ تھے اس لئے انہیں قاضی بنایا اور حضرت مفتی اعظم ہند اور حضرت برہان ملت مولانا مفتی برہان الحق جبلپوری علیہماالرحمہ کو ان کی اعانت کے لئے مفتی دار القضاء کے منصب پر فائز فرمایا … اس دارالقضاء میں اگر چہ حضرت مفتی اعظم ہند،حضرت صدر الشریعہ کے ما تحت تھے مگر غور کر لیجئے کہ یہ دار القضاء کوئی معمولی دار القضاء نہ تھا،پورے ہندوستان کا سب سے بڑا مرکزی دار القضاء تھا جسے سپریم کورٹ کہہ لیجئے اور اس دار القضاء میں مفتی کی وہی حیثیت تھی جو کسی بنچ کے چند ججوں کی ہوتی ہے۔ایک نوعمر نوجوان کو سپریم کورٹ کی بنچ کے ججوں میں شامل کرنا کتنا بڑا اِعزاز ہے کہ کہنہ مشقوں کو بھی شاید باید نصیب ہوتا ہے اس نو عمری میں سب سے بڑے دار القضاء کا رکن بنانا ہی اس کی دلیل ہے کہ ایک دن آئیگا کہ یہ نوعمر پوری دنیا کے علماء میں وہ حیثیت حاصل کریگا کہ اس کی حیثیت عالمی سپریم کورٹ کے اعلیٰ جج کی ہو جائے گی……اور دنیا نے اپنے چشم سر سے دیکھ لیا کہ حضرت مفتی اعظم ہند اپنے عہد میں پوری دنیائے سنیت کے صرف قاضی القضاۃ ہی نہ تھے بلکہ روحانی شہنشاہ تھے۔(مفتی اعظم اپنے فضل و کمال کے آئینے میں۔ص؍۷۔از فقیہ عصر مفتی محمد شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ)

وصال پر ملال:آپ شب پنجشنبہ ۱۴؍محرم الحرام ۱۴۰۲ھ مطابق ۱۲؍نومبر ۱۹۸۱؁ ایک بجکر چالیس منٹ پر مسلمانان عالم اور کروروں عقیدت مندوں کو اچانک داغ مفارقت دے گئے ،بی بی سی لنڈن،آل انڈیا ریڈیو،پاکستان ریڈیو،اور اخبارات و رسائل نے اس المناک و وحشتناک حادثہ کی خبر ساری دنیا میں پھیلادی جس سے مسلمانوں پر ایک بجلی سی گر پڑی اور سو گواروں کے قافلے بریلی کی جانب چل پڑے ،کاروں،بسوں ،ٹرینوں،اور ہوائی جہازوں سے علماء و فضلاء ،مختلف ممالک کے اسلامیہ انٹر کالجبریلی شریف کے وسیع وعریض میدان میں نماز جنازہ ادا کی گئی ۔رحمہ اللہ تعالیٰ رحمۃًََواسعۃًََ۔ (استقامت کانپور،مفتی اعظم ہند نمبر،ص؍۳۱۶) قطعۂ تاریخ یہ ہے : ہجری ست سال ’’سوئے بہشت بزرگ قصر‘‘ (۰۲ ۱۴ھ) ’’پرواز کرد مفتی اعظم‘‘ بہ عیسوی ست۱۹۸۱۱ء (قتیل دانا پوری)اور آیت کریمہ ’’ان المتقین فی جنّٰتٍ وَّ نعیمٍ‘‘تاریخ وصال ہے۔ ٭٭٭

متقی بن کر دکھائے اس زمانے میں کوئی

ایک میرے مفتی اعظم کا تقویٰ چھوڑ کر

بدل ڈالی حکومت وقت کی، فتویٰ نہیں بدلا

تعالیٰ الله یہ جاہ و جلال مفتی اعظم