اس دور میں سرمایہ داروں کا مومن اور جنتی ہونا، ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے

Taasir Urdu News Network – Syed M Hassan 12th Jan.

ابونصر فاروق

رسول اللہ ﷺنے فرمایا :لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا جس میں آدمی اس بات کی پروا نہیں کرے گا کہ اُس نے جو مال کمایا ہے وہ حلال ہے یا حرام۔ (بخاری)
یہ پیشین گوئی رسول اللہ ﷺنے ڈیڑھ ہزار سال پہلے کی تھی جو آج لوگوں کو آنکھوں سے دکھائی دے رہی ہے۔ہر مسلمان دولت مند اور سرمایہ دار بننے کی دھن میںلگا ہوا ہے۔اپنے ساتھ ساتھ اپنے بیٹے بیٹیوں کو بھی ایسی ہی تعلیم و تربیت دے رہا ہے کہ وہ اچھی سے اچھی نوکری کر کے خوب دولت کمائیں اور شان و شوکت کی زندگی گزاریں۔یعنی آج کے مسلمانوں کا دین اور مذہب دولت کمانا بن چکا ہے۔ایسے کسی بھی مسلمان سے پوچھئے کہ اسلام میں حلال اور حرام کے جو احکام اور قوانین ہیں اُس کی آپ کو معلومات ہے ؟ اُن سبھوں کا ایک ہی جواب ہوگا… نہیں! پھر دوسرا سوال یہ کیجئے کہ حلال کب حرام ہو جاتا ہے ؟ اس پر بھی اُن سبھوں کا ایک ہی جواب ہوگا… نہیں! تیسرا سوال یہ کیجئے کہ حلال اور حرام صرف کھانے پینے میں ہوتا ہے یا دوسرے کاموں اورزندگی کے سارے معاملات میں ہوتا ہے ؟ اس پر بھی اُن سبھوں کا ایک ہی جواب ہوگا… نہیں ! اس کا سیدھا مطلب یہ ہوا کہ جب یہ مسلمان حلال اورحرام کو جانتے ہی نہیں ہیں تو پھر یہ حرام سے بچیں گے کیسے ؟
اس وقت مسلمانوں کاشاید ہی کوئی ایسا گھر ہوگا جہاں خالص حلال آمدنی آرہی ہوگی۔جب مسلم گھرانوں میں حرام آمدنی نہیںآ رہی ہے تو پھر ایسے گھر والوں کی کوئی دعا کیسے قبول ہو سکتی ہے ؟ ایسے لوگوں کی نماز، روزہ، حج ، عمرہ اورکسی بھی طرح کی دوسری عبادت قبول نہیں ہوگی۔ ان کی موت کے بعد ان کے لئے ایصال ثواب بھی نہیں کیا جاسکے گا۔ ہزار قرآن خوانی کراتے رہئے، قبروں پر جا کر فاتحہ پڑھتے رہئے، مرنے والا تو جہنم کی سیر کر رہا ہے ۔ وہاں آپ کی دعا اور عبادت اُس کے کس کام آئے گی ؟ قرآن خوانی اور فاتحہ خوانی کرنے والوں سے پوچھئے مرنے والا نماز نہیں پڑھتا تھا، کیا اُس کے نام سے یہ سب کرانے سے وہ جنتی بن جائے گا ؟ پھر دیکھئے وہ سیدھا جواب’’ نہیں‘‘ دیتے ہیں یا کوئی الٹی پلٹی بات بتا کر آپ کو بے وقوف بنانے کی کوشش کرتے ہیں ؟
یہ شکایت تو ہوتی ہے کہ دعا قبول نہیں ہو رہی ہے ، لیکن اس کی فکر نہیںہوتی ہے کہ گناہوں سے نہیں بچنے اورحرام آمدنی سے پرہیز نہیں کرنے کی وجہ سے کوئی دعا قبول نہیں ہو رہی ہے۔
(۱) کیسے ہو سکتا ہے کہ خدا اُنہیں ہدایت بخشے جنہوں نے ایمان کی نعمت پالینے کے بعد پھر کفر اختیار کیا، حالانکہ وہ خوداس بات پر گواہی دے چکے ہیں کہ یہ رسول حق پر ہے اور اُن کے پاس روشن نشانیاں بھی آ چکی ہیں ۔ اللہ ظالموں کو تو ہدایت نہیں دیاکرتا۔(آل عمران:۸۶)
اس آیت میں بتایا جارہا ہے کہ جو لوگ مسلمان ہونے کے بعد بھی کافروں جیسی زندگی گزارتے ہیں اُن کو اللہ ہدا یت سے محروم کر دیتا ہے یعنی کوئی اُن کو ہزار سمجھائے، ڈرائے ، خبردار کرے، اُن کا دل ایسا کالا پتھر بن جاتا ہے جس پر کوئی اچھی تصویر بنائی ہی نہیں جا سکتی ہے۔جب یہ مومن ہی نہیں بنے تو جنتی کیسے بنیں گے ؟
(۲) ……کاش تم ظالموں کو اُس حالت میں دیکھ سکو جب کہ وہ سکراتِ موت میں ڈبکیاں کھا رہے ہوتے ہیں، اور فرشتے ہاتھ بڑھا بڑھا کر کہہ رہے ہوتے ہیں کہ لاؤ نکالو اپنی جان، آج تمہیں اُن باتوں کے بدلے میں ذلت کا عذاب دیا جائے گا جو تم اللہ پر تہمت لگا کر ناحق بکا کرتے تھے، اوراُس کی آیات کے مقابلے میں سرکشی(بغاوت) دکھاتے تھے ۔(الانعام:۹۳)
جب ایسے لوگوں کی موت اس حالت میں ہوئی کہ یہ عذاب کے حقدار بن گئے اور فرشتے جلاد بن کر ان کی روح نکال کر لے گئے تو پھر یہ جنت کے حقدار کیسے بنیں گے ؟
(۳) ……پھر اُس شخص سے بڑھ کر ظالم اور کون ہوگا جو اللہ کی طرف منسوب کر کے جھوٹی بات کہے تاکہ علم کے بغیر لوگوں کی غلط رہنمائی کرے۔ یقینا اللہ ایسے لوگوں کو سیدھی راہ نہیں دکھاتا۔(الانعام:۱۴۴)
ایسے ظالم لوگ جنہوں نے قرآن کے احکام اور رسولﷺ کی سیدھی سچی باتوں کو جھٹلا کرادھراُدھر کی جھوٹی باتوں سے بخشش، مغفرت اور شفاعت کا یقین دلا رکھا ہے اور نیک بننے اور صالح عمل کرنے کی جگہ دوسری دوسری باتوں میں الجھا کرشفاعت اوربخشش کا فریب دے رہے ہیں اور بغیر علم کے گمراہی پھیلا رہے ہیں تواللہ کا اعلان ہے کہ دین کی ایسی باتیں کرنے والوں کو بھی اللہ تعالیٰ ہدایت اوررحمت سے محروم کر دیتا ہے۔
(۳) کیا تم لوگوں نے حاجیوں کو پانی پلانے اور مسجد حرام کی مجاوری کرنے کو اُس شخص کے کام کے برابر ٹھہرا لیا ہے جو ایمان لایا اللہ پر اور آخرت کے دن پر اور جس نے جاں فشانی کی اللہ کی راہ میں،اللہ کے نزدیک تو یہ دونوں برابر نہیں ہیں اور اللہ ظالموں کی رہنمائی نہیں کرتا۔(التوبہ:۱۹)
کہا جارہا ہے کہ اس دور میں اللہ کی راہ میںحق حلال پر گزارا کرنا، تنگی اور مفلسی میں زندگی گزارنا،دین کی سچی باتوں کی پیروی کرنے کی وجہ سے دنیا والوں کی دوستی اور مدد سے محروم رہنا،دولت مند رشتہ داروں کی بے حسی اور بے مروتی کی مارجھیلنا، میدان جہاد میں جہاد کرنے جیسا ہے۔ دکھاوے کی نماز،حج اور عمرہ کرنے والے دنیا پرست ایسے حق پرستوں کی برابری نہیںکر سکتے۔
(۴) پھر تمہارا کیا خیال ہے کہ بہتر انسان وہ ہے جس نے اپنی عمارت کی بنیاد خدا کے خوف اور اُس کی رضا کی طلب پر رکھی ہو یا وہ جس نے اپنی عمارت ایک وادی کی کھوکھلی ،نہیں ٹھہرنے والی کگار پر اٹھائی اور وہ اُسے لے کر سیدھی جہنم کی آگ میں جا گری ؟ ایسے ظالم لوگوں کو اللہ کبھی سیدھی راہ نہیں دکھاتا۔ (التوبہ:۱۰۹)
خدا کا خوف، قبر کے عذاب کی فکر اورآخرت کے حساب کتاب سے ڈرنے والے کی زندگی ایسی عمارت ہے جو مضبوط اور مستحکم بنیاد پر بنی ہے اور دولتمند، دنیا پرستوںاور جھوٹی مذہبیت والوںکی زندگی ایسی عمارت ہے جو کھوکھلی ،نہیں ٹھہرنے والی کگار پر اٹھائی گئی ہوجو جہنم میں لے جائے گی۔
(۵) حقیقت یہ ہے کہ اللہ لوگوں پر ظلم نہیں کرتا، لوگ خود اپنے اوپر اظلم کرتے ہیں۔ (آج یہ دنیا کی زندگی میں مست ہیں) اور جس روز اللہ اُن کو اکٹھا کرے گاتو (یہی دنیا کی زندگی اُنہیں ایسی محسوس ہوگی) جیسے یہ صرف ایک گھڑی بھر آپس میں جان پہچان کرنے کو ٹھہرے تھے(اُس وقت ثابت ہو جائے گا کہ) اصل میں سخت گھاٹے میں رہے وہ لوگ جنہوں نے اللہ کی ملاقات کو جھٹلایا اور ہرگز وہ سیدھی راہ پر نہ تھے۔ (یونس:۴۴/۴۵)
کہا جارہا ہے کہ آخرت میں جہاں جنتی ہمیشہ ہمیشہ جنت میں رہیں گے ، اُن کو کبھی موت آئے ہی گی نہیں، وہاں یہ جہنمی جو دوزخ کی بھڑکتی آگ میں جل رہے ہوں گے اُن کو ایسا لگے گا جیسے یہ دنیا میں چند گھنٹوں کی زندگی گزار کر آئے ہیں۔تب اُن کو معلوم ہوگا کہ دنیا کی چندگھنٹوں کی عیش و عشرت کی زندگی کے لالچ میں اُنہوں نے کتنی قیمتی نعمت اوردولت گنوا دی۔لیکن اب پچھتانے کا کوئی فائدہ نہیں ہونے والا ہے۔
(۶) ’’……یہ تو زمانے کے اتار چڑھاؤ ہیں جنہیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں۔تم پر یہ وقت اس لئے لایا گیا ہے کہ اللہ دیکھنا چاہتا ہے کہ تم میں سچے مومن کون ہیں۔‘‘(آل عمران آیت ۱۴۰)
دنیا کی زندگی میں آزمائش ہر انسان کے اوپر آتی ہے۔اور یہ آزمائش اس لئے آتی ہے کہ اللہ دنیا والوں کو دکھائے کہ کون سچا مومن ہے اور کون جھوٹا منافق۔مومن کم کفایت میں زندگی گزارتا ہے۔ اُس کی اتنی آمدنی ہوتی ہی نہیں کہ وہ اپنے لئے سرمایہ جمع کرے۔لیکن ایمان کا جھوٹا دعویٰ کرنے والا منافق زندگی بھر دولت کمانے، جائیدادیں بنانے اور زمین و مکان کے چکر میں اللہ کو ، رسول کو، موت کو، قبر کو آخرت کو بھولا رہتا ہے۔اور بد نصیب اپنی زندگی بھر کی کمائی ہوئی دولت کو دوسروں کے لئے چھوڑ کر خالی ہاتھ چلا جاتا ہے۔
(۷) اللہ جسے چاہتا ہے بے حساب رزق دیتا ہے۔(النور:۳۸)زمین میںچلنے والاکوئی جاندارایسانہیں ہے جس کا رزق اللہ کے ذمہ نہ ہو،جس کے متعلق وہ نہ جانتا ہو کہ وہ کہاںر ہتاہے اور کہاں سونپا جاتا ہے ۔(ہود:۶)
سرمایہ دار روزی کے سلسلے میں اللہ پر ایمان نہیں رکھتا کہ وہ جب چاہے گا جتنا چاہے گا روزی دے گا۔وہ اپنے بل بوتے پر اپنے مستقبل کے لئے بے انتہا دولت جمع کر کے رکھنا چاہتا ہے کہ بڑھاپے میں کوئی تکلیف نہیں اٹھانی پڑے۔اللہ پر ایسے آدمی کا ایمان ہوتا ہی نہیں ہے۔ کہا جارہا ہے کہ اس اندھے ، بد عقل، ناسمجھ سرمایہ دارکو دکھائی نہیں دے رہا ہے کہ زمین پر جتنی جاندار مخلوق پائی جاتی ہے کیا وہ انسانوں کی طرح اپنے مستقبل کے لئے اپنا کھانا جمع کرکے رکھتی ہے۔وہ ایسا نہیں کرتی ہے اس کے بعد بھی کیا اُن میں سے کوئی بھوکا مر رہا ہے ؟ ہر جاندار کو روزی دینے کا ذمہ اللہ نے لے رکھا ہے۔ لیکن بد نصیب سرمایہ دار انسان اس با ت کو ماننے کے لئے تیار ہے ہی نہیں۔
(۹) اللہ اپنے بندوںمیں سے جس کا رزق چاہتاہے کشادہ کرتا ہے اورجسے چاہتا ہے نپاتلا دیتا ہے۔(القصص:۸۲)کیا یہ لوگ نہیںدیکھتے کہ اللہ رزق کشادہ کرتا ہے جس کاچاہتاہے اورتنگ کرتاہے،جس کا چاہتا ہے۔(الملک:۲۱)
کس کو روزی کم ملے گی اور کس کو روزی زیادہ ملے گی اس کافیصلہ اللہ نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہے اور وہ اپنے بندوں کو ایک وقت تک کم روزی دیتا ہے اور پھر مالدار بنا دیتا ہے۔غور کیجئے تو معلوم ہوگاکہ پچاس سال پہلے ایک آدمی اکیلے کما کر اپنے پورے خاندان کو قدرے قلیل آمدنی میں پال رہا تھا۔پھر اُس کے بچے بڑے ہوئے پڑھ لکھ کر زیادہ روزی کمانے لگے اور اب اُس فقیرانہ زندگی گزارنے والے کی گنتی دولت مند لوگوں میں ہونے لگی۔ کچے کھپریل مکان کی جگہ ٹائل ماربل والا شاندار مکان بن گیا۔ جہاں گھر میں سائیکل تک نہیں تھی ایک نہیں دودو تین تین چار چار بائک اور اسکوٹی گھروں میں کھڑی ہیں۔دولت والوں کے گھروں میں جتنی آسائشیں ہوتی ہیں وہ سب یہاں موجود ہیں۔کسی چیز کی کمی نہیں۔
(۱۰) پھر بتاؤ کون ہے جوتمہیںرزق دے سکتا ہے اگر رحمن اپنارزق روک لے ۔(عنکبوت: ۶۰) اگر(اللہ) تمہارا رزق روک لے تو کون ہے جو تمہیں رزق مہیا کرائے گا………(طلاق:۲/۳)
دولت کا لالچی،د نیا کا پرستار، بد بخت سرمایہ دار قرآن کی ان باتوں پر ایمان رکھتا ہی نہیں ہے۔دیکھتا ہی نہیں ہے کہ کتنے کروڑ پتی ہیں جو اتنی ڈھیر ساری دولت رکھنے کے بعد بھی اُس دولت کو استعمال نہیں کر سکتے ہیں۔حد سے زیادہ دولت کمالینے کے بعد جب عمر بڑھی تو ایسی بیماری لگ گئی کہ نہ اچھا کھا سکتے ہیں،نہ کہیں سیر سپاٹے کے لئے جا سکتے ہیں، نہ آزادی کے ساتھ دوستوں سے ملاقات کر سکتے ہیں۔اُن کا کمرہ جیتے جی اُن کے لئے قبرستان بنا ہوا ہے۔اور بیماری ایسی ہے کہ ایک بار ہسپتال گئے تو لاکھوں لاکھ کا بل بنا۔ڈھیر ساری دولت بھی چلی گئی اور بیماری بھی اچھی نہیں ہوئی۔ایسے بدنصیب نے اللہ کی نافرمانی کر کے ڈھیر ساری دولت تو کما لی لیکن اُس کا فائدہ نہیںاٹھا پایا۔
حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺکو فرماتے ہوئے سنا: اگر تم اللہ پراس طرح توکل کروجس طرح توکل کرنے کا حق ہے تووہ تم کو اُسی طرح روزی دے گا جس طرح پرندوں کو روزی دی جاتی ہے۔ وہ صبح سویرے اپنے آشیانوں سے خالی پیٹ نکلتے ہیں اور شام کو آسودہ حال لوٹ کر واپس آتے ہیں۔ (ترمذی)جو باتیں قرآن کی آیتوں میں بتائی گئیں اُنہیں کو عمر ؓ نے بہت عمدہ مثال دے کر سمجھایا ہے۔مگر یہ باتیں علم اور عقل رکھنے والے ہوش مند اور سمجھدار لوگوں کی سمجھ میں آتی ہیں۔جانوروں کی طرح بے عقلی، ناسمجھی،لالچی،ضدی،غصہ ور، انتقام لینے والے اور دشمنی کرنے والے حیوانوں کی سمجھ میں نہیں آتی ہیں۔
آپ کہیں گے کہ جب ان احمقوں کی سمجھ میں یہ باتیں آتی ہی نہیںہیں تو پھر آپ کیوں ہر ہفتے لکھتے رہتے ہیں اور جمعہ کے خطبے میں یہ باتیں بتاتے رہتے ہیں ؟ اس کا جواب قرآن کی ہی یہ آیت ہے’’چھوڑو اُن لوگوں کو جنہوں نے اپنے دین کو کھیل اور تماشا بنا رکھا ہے اور جنہیں دنیا کی زندگی فریب میں مبتلا کئے ہوئے ہے۔ہاں مگر یہ قرآن سنا کر نصیحت اور تنبیہ کرتے رہو ۔ ………‘‘(انعام:آیت ۷۰)
اللہ نے علم کی دولت سے نواز کراور نثر نگاری، شاعری اورخطابت کی لیاقت سے سرفراز کر کے ایسا فرض کاندھوں پر ڈال دیا ہے کہ اگر ان نعمتوں کا حق ادا کرنے میں کوتاہی ہوئی تو لینی کی دینی پڑ جائے گی۔یعنی ان صلاحیتوں والا انسان اپنے فرض میں کوتاہی کرنے کے جرم میںجہنم میں چلا جائے گا۔ جن کو اللہ توفیق اور ہدایت سے نوازتا ہے وہ بے لوث،کسی اجر و انعام اور شکریہ کی خواہش کے بغیر صرف اللہ کی خوشنودی اور رضا کے لئے پوری ذمہ داری اور خلوص کے ساتھ اپنا فرض ادا کرتے رہتے ہیں۔اور اللہ تعالیٰ اپنے ایسے بندوں کی زبان اور تحریر میں اثر پیدا کرکے اپنے بندے کی عزت اور مقبولیت بڑھاتا اوراُنہیں ہر دل عزیز بنا دیتاہے۔قرآن کہتا ہے:’’یہ اللہ کا فضل ہے،جسے چاہتا ہے عطا کرتاہے،اور وہ بڑا فضل فرمانے والا ہے۔‘‘
ۃضظژظضۃ
رابطہ:8298104514