اعمال کا دار و مدار نیت پر ہے

Taasir Urdu News Network – Syed M Hassan 5th Jan.

محمد اختر عادل گیلانی

صحیح البخاری کی پہلی حدیث ہے” اعمال کا دار و مدار نیت پر ہے ” مطلب یہ ہے کہ وہ اعمال اللہ کو زیادہ پسند ہے جو خلوصِ نیت کے ساتھ اس کے خوف اور رضا کے لیے کیا جائے ایسے ہی نیک اعمال سے دنیا و آخرت میں خیر و فلاح کی امید کی جاسکتی ہے نیک اعمال کے حوالے سے کی گئی دعائیں بارگاہِ خداوندی میں مقبول ہوتی ہیں۔
حدیث میں بنی اسرائیل کے تین نیک لوگوں کا سبق آموز واقعہ تفصیل کے ساتھ آیا ہے کہ تین لوگ ایک جنگل سے گزر رہے تھے کہ راستے میں سخت ہوا و آندھی کے ساتھ تیز بارش شروع ہوگئی تینوں نے بارش سے بچنے کے لیے قریب کے ایک غار میں پناہ لی تینوں غار کے اندر گئے ہی تھے کہ پہاڑ سے لڑھک کر ایک بڑی سی چٹان غار کے دہانے پر اس طرح آگئی کہ باہر نکلنے کا راستہ بند ہو گیا چٹان اتنی بڑی تھی کہ اسے تینوں مل کر بھی ہٹانا تو دور کی بات ہلا بھی نہی سکتے تھے۔ وہ تینوں ساتھی بہت پریشان ہوئے اور آپس میں کہنے لگے کہ چھوٹی مصیبت سے بچنے کے لیے بڑی مصیبت‌ میں پھنس گئے۔ جان جانے کا خطرہ لاحق ہو گیا۔ اس ناگہانی مصیبت سے نجات کی تدابیر سوچنے لگے دور تک کوئی آبادی نہیں تھی اور اس جنگل بیابان میں کہیں سے مدد ملنے کی بھی امید نظر نہیں آرہی تھی۔ تینوں نے مشورہ کیا کہ اللہ تعالیٰ ہی سے اس مصیبت سے نجات دے سکتا ہے اس لیے اسی سے دعا کی جائے۔ تینوں اللہ کے نیک بندے تھے، ظاہر سی بات ہے کہ نماز اور دوسرے ارکان دین کے پابند رہے ہوں گے، لیکن اپنی نمازوں، روزہ، تسبیح و تہلیل اور دوسرے اعمال کا حوالہ دینے کے بجائے تینوں نے فیصلہ کیا کہ اپنے اپنے ایسے نیک اعمال کے حوالے سے دعا کی جائے جو صرف خوفِ خدا اور رضائے الہٰی کے لئے خلوصِ نیت کے ساتھ کی تھی۔ ان میں سے ایک اٹھا( ہو سکتا ہے نماز بھی پڑھی ہو) اور اللہ تعالیٰ کے حضور ہاتھ پھیلاتے ہوئے گریہ و زاری کے ساتھ دعا گو ہوا: اے اللہ تو جانتا ہے کہ ایک شخص نے میرے یہاں دن بھر مزدوری کی تھی، لیکن شام کو وہ اپنی مزدوری لیے بغیر چلا گیا میں نے اس کی مزدوری کی رقم سے بکری خریدی اللہ تعالیٰ نے ان میں اتنی خیر وبرکت دی کہ ان کا ایک ریوڑ تیار ہو گیا مزدور اس بات کو بھول چکا تھا کہ وہ مالی تنگی کا شکار ہو گیا تنگی کے دنوں میں انسان نظر دوڑاتا ہے کہ کہاں سے رقم اور مدد مل سکتی ہے؟ اسے یاد آیا کہ فلاں شخص کے پاس میری ایک دن کی مزدوری باقی ہے، چلیں اسی سے مانگ کر دیکھوں وہ تلاش کرتے ہوئے اس شخص کے گھر پہنچا اور بیتے دنوں کی یاد دلاتے ہوئے اپنی اجرت مانگی اس شخص نے اس کو پہچان لیا اور اس سے کہا کہ دیکھ سامنے ریوڑ میں جتنی بکریاں ہیں وہ تیری ہیں، انہیں لے جا اس شخص نے کہا مجھ غریب سے مذاق نہ کرو مجھے صرف میری اجرت دے دو اس نے کہا میں مذاق نہیں کررہا ہوں، یہ سب بکریاں تیری اجرت کی ہی ہیں، تُو اپنی اجرت لیے بغیر چلا گیا تھا تو، میں نے اس رقم سے ایک بکری خریدی اللہ تعالیٰ نے اس میں اتنی خیر و برکت دی کہ اس کا ایک ریوڑ تیار ہوگیا۔ مَیں نے ان بکریوں کی دیکھ بھال اور رکھوالی کی اس کے بدلے دودھ سے فائدہ اٹھایا اگر تو اپنی اجرت نہیں لے گا تو میں آخرت میں اس کا بدلہ کہاں سے دوں گا اور اللہ کو کیا جواب دوں گا؟ میں اللہ کی پکڑ اور حساب سے ڈرتا ہوں وہ شخص بکریوں کے ریوڑ کو لے کر چلا گیا۔ اس شخص نے اپنے اس نیک عمل کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ: ” اے اللہ یہ کام میں نے صرف تیرے ڈر اور تیری رضا کے لیے کیا تھا اگر میرا یہ عمل تیری نظر میں مقبول ہے تو اس مصیبت سے نجات دے دے” اس کی دعا بارگاہِ خداوندی میں قبل ہوئی اور چٹان تھوڑی(ایک تہائی) کھسک گئی، روشنی نظر آنے لگی لیکن نکلنے بھر کی جگہ نہ ہوئی
قبل اس کے کہ دوسرے شخص کا حال اور اعمال بیان کیا جائے، تھوڑا رک کر ہم سب اپنے اپنے اعمال کا محاسبہ کریں اور جائزہ لیں: کیا اس میں ان لوگوں کے لیے نصیحت نہیں ہے جو مزدورں سے کام کراکر اس کی مزدوری بلا وجہ روک رکھتے ہیں، طے شدہ رقم سے کم دیتے ہیں، مانگنے پر ڈانٹ پھٹکار لگاتے ہیں، گالیاں دیتے ہیں، دھکے دے کر گھر سے نکال دیتے ہیں اور دوسرے کا مال ہڑپ کر لیتے ہیں یہاں تو حکم ہے کہ مزدور کی مزدوری پسینہ خشک ہونے سے پہلے دے دو لیکن اکثرہا دیکھنے اور سننے میں یہ آتا ہے کہ مزدور کو اپنی اجرت کے لیے گالیاں سنی پڑتی، دھکے کھانے پڑتے اور خون جلانا پڑتا ہے ذرا اس بات پر بھی غور کرنا چاہیے کہ جب مزدور کو وقت پر مزدوری نہ ملے گی تو اس کے بال بچے کہاں سے کھائیں گے؟ اگر مزدور یا اس کے بھوکے بال بچے نے آہ بھری اور بد دعا دے دی تو کیا حشر ہوگا؟ اور سب سے بڑی اور پریشانی کی بات یہ ہونی چاہیے کہ آخرت میں اللہ کو کیا جواب دیں گے؟
اس میں دوسرا سبق یہ ہے کہ جو عمل اللہ کے خوف، اس کی رضا اور خلوصِ دل کے ساتھ کیا جائے تو اس کی برکت سے مصیبت ٹلٹی اور اللہ کی مدد ضرور آتی ہے جیسا کہ دوسری حدیث میں ہے کہ اگر رزقِ حلال اور آدابِ دعا کو ملحوظ رکھ کر دعا کی جائے تو وہ لازماً قبول ہوتی ہے اس کی تین شکل ہو سکتی ہے جس کام کے لیے دعا کی جائے وہی مل جائے یا ظاہراً وہ دعا قبول نہ ہو لیکن اللہ تعالیٰ کوئی دوسری مصیبت ٹال دے یا دنیا میں کچھ نہ ملے بلکہ آخرت کے لیے توشہ بن جائے اسی حدیث میں اس بات کی مزید تفصیل ملتی ہے کہ جب بندہ اپنی کی ہوئی دعاؤں کا آخرت میں اجر دیکھے گا، تو کہے گا، کاش! دنیا میں میری کوئی دعا قبول نہیں ہوتی؟
عموماً ہوتا یہ ہے کہ ہم اپنی پریشانیوں، گھبراہٹ اور مصیبت میں اللہ تعالیٰ سے مدد کی امید رکھتے اور دعا بھی کرتے ہیں اور اگر مطلوبہ ضرورت و خواہش کی تکمیل نہیں ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ ہی سے بدگمان ہونے لگتے اور گلہ و شکوہ کرنے لگتے ہیں حالانکہ اگر رزقِ حلال کے اہتمام کے ساتھ خلوصِ دل کے ساتھ کی جائے تو دُعاء لازماً قبول ہوتی ہے، جیسا کہ اوپر بیان کردہ واقعہ میں ہوا دوسرے اور تیسرے شخص نے بھی اپنے اپنے نیک اعمال کے حوالے سے دعا کی جس سے غار کے دہانے سے چٹان پوری طرح ہٹ گئی اور تینوں بخیر و عافیت باہر نکل آئےان میں دوسرے نے والدین کی خدمت گزاری کے حوالہ سے اور تیسرے نے کبیرہ گناہ سے صدقِ دل سے توبہ کرنے کے حوالے سے دعا کی جن کے متعلق تفصیل ان شاء اللہ اگلے ہفتہ آئے گی۔
رابطہ:9852039746