سعودی عرب : سزائے موت میں آگے

Taasir Urdu News Network – Syed M Hassan 2nd Feb

سعودی عرب میں ولی عہد اور وزیر اعظم محمد بن سلمان کے دور حکومت میں سزائے موت کی شرح تقریباً دوگنی ہو گئی ہے۔ محمدبن سلمان دنیا کے سامنے اپنا امیج ایک اصلاح پسند اور حکمران کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جو شخصی آزادیوں کے ساتھ ساتھ جدیدیت پر بھی زور دیتا ہے۔ اس کے باوجود مسلمانوں میں سزائے موت کے واقعات میں کمی کے بجائے اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ سال سعودی عرب میں سزائے موت پانے والوں کی تعداد 2021 کے مقابلے میں دوگنی تھی۔
سوشل اکٹوسٹ گروپوں کا کہنا ہے کہ ولی عہد کے سیاسی مخالفین کو نیست و نابود کرنے کےلیے زیرو ٹالرینس کی صورت میں لائی گئی تبدیلی کی بھاری قیمت ادا کر نی پڑ رہی ہے۔محمد بن سلمان نے ملک کے کاروباری گھرانوں، صنعت کاروں اور امیر خاندانوں کو غیر معمولی اختیارات دیے ہیں۔’’ دی گارجین‘‘ کی خبر کے مطابق، نئے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ سعودی ولی عہد نے سزائے موت کو روکنے کے اپنے وعدوں پر عمل نہیں کیا ہے۔چنانچہ پچھلے چھ سالوں میں، جب ملک کی قیادت بن سلمان کے ہاتھ میں تھی، حالیہ تاریخ میں کسی بھی دوسرے سال کے مقابلے میں حکومت کے حکم سے زیادہ اموات ہوئی ہیں۔ 2015 سے 2022 کے درمیان ہر سال اوسطاً 129 افراد کو پھانسی دی گئی۔ یہ اعداد و شمار 2010-14 کی مدت کے مقابلے میں 82 فیصد اضافہ کو ظاہر کرتا ہے۔ گزشتہ سال 147 افراد کو سزائے موت دی گئی۔ ان میں سے 90 ایسے جرائم تھے، جنہیں غیر متشدد سمجھا جاتا تھا۔
قابل ذکر ہے گزشتہ سال 12 مارچ کو 81 افراد کو سزائے موت سنائی گئی تھی۔ یہ اب تک کی سزائے موت کی سب سے بڑی تعداد تھی۔ سعودی عرب میں پھانسی کے علاوہ سر قلم کر کے بھی لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔ اکثر ایسی بربریتیں دنیا کے سامنے نہیں آتیں کیونکہ عرب ملک میں آج بھی میڈیا کو آزاد ی حاصل نہیں ہے۔ اسی وجہ سےسعودی عرب کو خطے میں سب سے زیادہ سزائے موت دینے والے ممالک میں شمار کیا جاتا ہے۔
حقوقِ انسانی کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں سزائے موت میں کمی آنے کے باوجود سعودی عرب میں موت کی سزا پانے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو ا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق گذشتہ چار برسوں سے عالمی سطح پر سزائے موت میں کمی کا رحجان دیکھنے میں آیا ہے۔ اب یہ سزائیں مزید کم ہو گئی ہیں۔ایمنسٹی نے ان اعدادوشمار میں چین کو شامل نہیں کیا جہاں، خیال کیا جاتا ہے کہ پھانسی دیے جانے والوں کی تعداد ہزاروں میں ہو سکتی ہے، لیکن وہ ایک ریاستی راز ہی بن کر رہ گیا ہے۔یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ ایران، شمالی کوریا اور ویتنام نے معلومات تک رسائی کو روکتے ہوئے سزائے موت پانے والوں کی صیحح تعداد نہیں بتائی۔حقوقِ انسانی کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق گذشتہ چند برسوں سے عالمی سطح پر سزائے موت میں کمی کا رحجان دیکھنے میں آیا ہے۔ایمنسٹی کی سینیئر ریسرچ ڈائریکٹر کلیر الگر کا کہنا ہے کہ ’سزائے موت ایک غیر مہذب اور غیر انسانی قسم کی سزا ہے اور اس بات کا کوئی ناقابل تردید ثبوت نہیں ہے کہ اس سے قید کے مقابلے میں جرائم کی حوصلہ شکنی ہوئی ہو۔تاہم چند ایسے ممالک ہیں ،جنھوں نے اس عالمی رحجان کی نفی کرتے ہوئے سزائے موت میں ایک تسلسل سے اضافہ کیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کی طرف سے سزائے موت میں اضافہ ایک تشویشناک صورتحال ہے۔
سعودی عرب میںسزائے موت میں اکثریت منشیات اور دہشت گردی سے متعلق جرائم میں سنائی جاتی ہیں۔ایمنسٹی کے مطابق سزائے موت میں اضافہ ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر بھی ہو رہا ہے۔حالانکہ عالمی سطح پر سزائے موت میں کمی کا رحجان مختلف وجوہات سے دیکھنے میں آیا ہے۔مصر، جاپان اور سنگا پور سمیت کئی ممالک میں سزائے موت میں واضح کمی دیکھنے میں آئی ہے، گرچہ وہ سزائے موت کی حمایت کرتے رہے ہیں۔سنہ 2017 میں اینٹی نارکوٹکس کے قانون میں تبدیلی کے بعد ایران نے مسلسل دوسرے سال ماضی کے مقابلے میں کم لوگوں کو سزائے موت دی۔سنہ 2010 سے پہلے افغانستان میں کوئی سزائے موت نہیں دی گئی۔ سنہ 2018 میں موت کی سزا دینے والے تائیوان اور تھائی لینڈ میں بھی موت کی سزاؤں میں وقفہ دیکھا گیا ہے۔دنیا بھر میں 106 ممالک نے تمام جرائم کے لیے سزائے موت کو قانون سے ہی ختم کر دیا ہے، جبکہ 142 ممالک نے اپنے قانون سے سزائے موت کو یا تو ختم کر دیا یا اس پر عملدرآمد چھوڑ دیا ہے۔لیکن اس سر زمین کو امن و انصاف کا گہوارہ بنائے جانے کے حق میں، انتظامی امور کے ماہرین کا خیال ہے کہ پھانسی کی سزاضروری ہے، لیکن اس کا استعمال بہت ہی دیانت داری اور ذمہ داری کے ساتھ ہونا چاہئے اور تبھی ہوناچاہئے جب اس کا کوئی متبادل نہیں ہو۔
**************